یوسفزئی پختون : کل اور آج

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

ملک احمد خان بابا کا مجسمہ ملاکنڈ میں

آبادی کے لحاظ سے پختون دنیا کی تقریباً 25ویں بڑی قوم ہے۔ مگر قبائلی اقوام (وہ اقوام جو آج بھی قبائلی زندگی گزار رہے ہیں) میں یہ دنیا کی سب سے بڑی قوم ہے۔ پختون قوم چھوٹے بڑے 300 قبائل میں تقسیم ہیں۔ ان قبائل میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا قبیلہ یوسفزئی ہے۔ اس قبیلہ کے افراد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے نو اضلاع سوات، دیر بالا، دیر زیریں، باجوڑ، بونیر، شانگلہ، ملاکنڈ، مردان اور صوابی میں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاؤہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش اور افغانستان میں بھی کم تعداد میں آباد ہیں۔

یوسفزئی قبیلے کا جدامجد یوسف تھا۔ یوسف کا دوسرا بھائی عمر جوانی میں فوت ہو چکا تھا۔ یوسف نے اپنے یتیم بھتیجے مندنڑ کو اپنے بیٹوں کی طرح پالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مندنڑ کا اولاد بھی یوسفزوں میں شمار ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یوسفزئی قبیلہ کے لوگوں کا ابتدائی مسکن افغانستان کے اندر قندھار کے آس پاس کا علاقہ تھا۔ یہ لوگ چودھویں یا پندرہویں صدی میں کابل ہجرت کر گئے۔  اور کابل کے بادشاہ مرزا الغ بیگ کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنانے لگے یا بغاوت کر گئے۔ مرزا بغاوت کو کچلنے میں ناکام ہوا۔ تو یوسفزئی مشران کے ساتھ صلح کرکے ایک چال چلایا۔ ایسا کیا گیا کہ ان مشران کو دعوت کے بہانے محل کے اندر بلا کر غیر مسلح کیا گیا۔ اور پھر تمام کو باندھ کر قتل کیا گیا۔ اللّٰہ بخش یوسفی کے مطابق ان مشران کی تعداد 100, روشن خان کے مطابق 700 اور منشی گوپال داس کے مطابق 8 تھی۔ ان لوگوں میں ایک بارہ سالہ بچہ احمد خان بھی شامل تھا۔ جن کو اس وجہ سے چھوڑ دیا گیا کہ ان کے چچا ملک سلیمان نے مرزا الغ بیگ کو کابل کے تخت تک پہنچانے میں مدد دی تھی۔ یہی بچہ بڑا ہو کر ملک احمد خان کے نام سے یوسفزئی سردار بنا۔ اور ان کی سربراہی میں پندرہویں صدی کے اواخر میں یوسفزئی کابل سے پشاور ہجرت کر گئے تھے۔

گجو خان بابا مزار، صوابی

یوسفزئی پشاور آئیں تو ایک دوسرے پختون قبیلے دلاذاک نے ان کو بخوشی علاقہ دے کر سکونت کی سہولت فراہم کی۔ جبکہ شلمانی قبیلہ سے یوسفزوں نے بزور طاقت علاقہ قبضہ کیا۔ یوسفزوں نے باجوڑ پر حملہ کیا تو وہاں ان کی محسن قبیلہ دلاذاک رہائش پذیر تھے۔ مگر علاقہ قبضہ کرنے کی خاطر دونوں میں جنگ ہوئی۔ دلاذاک علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 1530 تک یوسفزوں نے سوات سے پشاور تک کا پورا علاقہ قبضہ کرلیا تھا۔ اور آج تک اسی علاقہ میں رھ رہے ہیں۔

ملک احمد خان کے بعد خان گجو خان، مصری خان، کالو خان اور بہاکو خان، یوسفزئی سردار بن گئے۔ شیخ ملی، احمد خان بابا کے دست راست اور ایک بلند پایہ دانشور تھے۔ جنہوں نے یوسفزئی کے ذیلی قبائل کے درمیان اس طرح اراضی کی تقسیم کی تھی کہ کسی ایک فرد کی جانب سے بھی اعتراض نہ ہوا۔

پختون قبائل یوسفزئی اور خٹک کے درمیان کئی مرتبہ لڑائیاں ہوئیں۔ جن کے دو بڑے وجوہات تھے۔ پہلا یہ کہ یوسفزئی مغل حکومت کے باغی تھے۔ جبکہ خٹک مغل حکومت کا ساتھ دے رہے تھے۔ دوسرا یہ کہ خٹک قبیلہ کی آبادی بڑھ گئی۔ تو وہ یوسفزئی علاقہ میں گھس آئیں۔ یاد رہے کہ خوشحال خان خٹک بعد میں یوسفزئی کے ساتھ جنگوں پر بہت پشیمان رہے۔ 

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی

یوسفزوں نے اگرچہ دوسرے پختون قبائل کے ساتھ جنگیں لڑی۔ مگر دوسری طرف جب بھی پوری افغان قوم کے اتحاد کے لئے کوئی بھی رہنما سامنے آیا۔ تو یہ عظیم لوگ ہمیشہ اس قائد کے جھنڈے تلے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے۔ خواہ وہ قائد پیر روشان تھا، خوشحال خان، احمد شاہ یا باچا خان۔

یوسفزئی آج بھی زندگی کے دوڑ میں اگر بہت زیادہ آگے نہیں تو زیادہ پیچھے بھی نہیں۔ اور ان کی زندہ جاوید مثالیں عالمی شہرت یافتہ اور کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل، سابق نگران وزیراعظم اورچیف جسٹس پاکستان ناصر الملک، موجودہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ہیں۔ ان کے علاؤہ بھی زندگی کے ہر شعبے میں سینکڑوں یوسفزئی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *