یروشلم (بیت المقدس) کی سات ہزار سالہ خون آلود تاریخ

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

یروشلم اور بیت المقدس ایک شہر کے دو نام ہیں۔ بیت المقدس کئی لحاظ سے دنیا کا ایک منفرد اور انتہائی اہم شہر ہے لیکن کبھی کبھی ایک انسان یا مقام کے لئے ان کی اہمیت یا کوئی خوبی وبال جان بن جاتی ہے۔ یروشلم کا بھی تقریبا یہی حال رہا ہے کیونکہ یہ شہر اٹھارہ مرتبہ تباہ اور اٹھارہ مرتبہ دوبارہ تعمیر ہو چکا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جن کو حاصل کرنے کے لئے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور دو سو سالہ جنگیں لڑی گئیں۔ یہ شہر تینوں آسمانی مذاہب اسلام عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ تینوں مذاہب سے ملحقہ مقدس مقامات یہاں موجود ہیں۔ اس بلاگ میں اس اہم شہر کی خون آلود تاریخ کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

مورخین کے مطابق پانچ ہزار قبل مسیح میں یہاں پہلی مرتبہ انسان آباد ہوچکے تھے لیکن اس شہر نے اس وقت اہمیت حاصل کی جب ایک ہزار قبل مسیح میں پیغمبر خدا حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے فتح کرکے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔ داؤد علیہ السلام کے وفات کے بعد ان کا بیٹا حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کسی ایک ملک کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے بادشاہ تھے یعنی کہ اسی دور میں یہ شہر پوری دنیا کا مرکزی شہر بن چکا تھا۔ آپ علیہ السلام نے یہاں ہیکلِ سلیمانی کو تعمیر کیا۔ ہیکلِ سلیمانی یہودیوں کی عبادت گاہ تھی۔ جن کو یہودی مذہب میں ایسی حیثیت حاصل ہے جیسا کہ مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ۔ اسی عبادت گاہ کی وجہ سے یہ شہر یہودیوں کے لئے سب سے اہم شہر بن چکا ہے۔

پانچ سو نواسی قبل مسیح میں بخت نصر نامی بادشاہ نے اس شہر پر حملہ کرکے لاکھوں یہودیوں کو قتل یا شہر سے باہر نکال دیا۔ شہر کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ بخت نصر بھی پوری دنیا کے بادشاہ تھے۔

قرآن مجید کے تیسرے پارے کے ایک آیت میں ایک کہانی کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ایک شخص ایک تباہ حال شہر کو دیکھ کر اپنے دل میں کہتا ہے کہ کیا یہ شہر بھی کبھی دوبارہ آباد ہوسکے گا؟ پھر خدا اسے سو سال کے لئے سلا دیتا ہے اور جب وہ نیند سے بیدار ہو جاتا ہے تو اپنے سامنے ایک پر رونق شہر کو دیکھتا ہے۔ مفسرین کے مطابق یہ شخص عزیر علیہ السلام ، یہ شہر بیت المقدس اور زمانہ بخت نصر کی تباہ کاری کے بعد کا زمانہ تھا۔

مسجد اقصیٰ

539 قبل مسیح میں فارس کے ہخامنشی حکمران سائرس اعظم نے شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس نے یہودیوں کو یہاں واپس آنے کی اجازت دے دی۔ پھر تقریبا اگلے پانچ صدیوں تک یہاں امن قائم رہا۔ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بزرگ پیغمبر زکریا علیہ السلام بھی یہاں کے رہنے والے تھے اور یہاں ہی مریم علیہ السلام آپ کی زیر کفالت رہی۔ مریم علیہ السلام بیت المقدس میں شبانہ روز عبادت میں مشغول رہتی تھی۔ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور بنی اسرائیل کے امراء نے 30 عیسوی میں یہاں آپ کو پھانسی پر چڑھانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اسلام کی آمد کے بعد مسلمانوں نے 16 مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے دل میں اس شہر کا انتہائی احترام تھا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں 638 کو مسلمانوں نے یہودیوں سے اس شہر کا قبضہ لے لیا۔ 691 میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے یہاں مسجد اقصی کو تعمیر کیا۔

کئی صدیوں تک مسلمانوں کے زیر قبضہ رہنے کے بعد 1095 میں یورپ کے اندر اس مقدس شہر کا قبضہ لینے کے لیے عیسائی پادریوں کی جانب سے ایک بہت بڑی مہم شروع کی گئی۔ اگلے چار برس تک ایک بہت بڑی لشکر تیار کرنے کے بعد عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے یورپ سے نکلے اور 1099 میں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے، بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ تاریخ میں اسے پہلی صلیبی جنگ کا نام دیا گیا۔

1187 میں مسلمانوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں تیسری صلیبی جنگ میں شہر کا قبضہ واپس عیسائیوں سے لے لیا۔ عیسائیوں کو یہاں رہنے کی اجازت دے دی گئی اور تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی عبادت گاہوں کا کنٹرول دے دیا گیا۔ اس کے بعد عیسائیوں نے اگلے سو برس تک چھ مرتبہ اس مقدس سرزمین کو مسلمانوں سے چھیننے کے لیے کئی حملے کیے مگر وہ ناکام رہے۔

بارہ سو ننانوے میں ایک حیران کن خبر سامنے آئی کے مصر کے مملوک بادشاہ نے بغیر لڑائی کے شہر کا کنٹرول عیسائیوں کو دے دیا۔ فریڈرک دوم شہر کے والی بنے مگر 1244 میں صرف پندرہ برس بعد مسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

پندرہ سو سترہ میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول نے شہر کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر دیا اور ٹھیک چار سو سال بعد 1917 میں برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اس شہر کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ برطانیہ نے بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دے دی اور اگلے چار دہائیوں تک پوری دنیا سے یہودی یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم میں یہودی سرمایہ کاروں نے اتحادی طاقتوں کو جنگ کے لئے پیسہ فراہم کیا۔ جس کے بدلے میں اتحادیوں نے 1948 میں فلسطین کو مساوی طور پر یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے اور بیت المقدس کو ایک کھلا شہر کے طور پر چھوڑنے کا قرارداد اقوام متحدہ سے پاس کرایا۔ عربوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی۔ جس کی وجہ سے دونوں اقوام کے درمیان کئی جنگیں لڑی گئیں۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل پورے یروشلم کا قبضہ لینے میں کامیاب ہوا جبکہ عرب اور مسلمان سراسر نقصان کا شکار ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکثر دانشور یہ مانتے ہیں کہ عربوں کو 1948 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔

سپر پاور کی کہانی، زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک

شیطان کے دروازے، جن کے ذریعے وہ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے

عرب اسرائیل جنگوں کی تاریخ، کس نے کیا کھویا کیا پایا

2 thoughts on “یروشلم (بیت المقدس) کی سات ہزار سالہ خون آلود تاریخ”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *