مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
افغانستان کو ایشیا کا دل کہا جاتا ہے۔ کوہ ہندوکش کی یہ ریاست وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے عین وسط میں واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے افغانستان کبھی سلطنت فارس کا حصہ رہا، کبھی ہندوستان کا، تو کبھی وسطی ایشیا کا۔ اس بات سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ افغانستان کبھی ایک کے زیر حکومت رہا تو کبھی دوسرے کا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے بلکہ افغانستان زیادہ تر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے رہا۔ پختونوں کی غلامی کا زمانہ سب سے کم ہے۔ افغانستان اس زمانے میں ہندوستان کا حصہ رہا جب افغان بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے رہیں۔
محمود غزنوی کا زمانہ
محمود غزنوی نسل کے لحاظ سے افغان نہیں تھے، ترک تھے۔ اس کا باپ سبکتگین بھی بادشاہ تھا یہ لوگ وسطی ایشیا سے افغانستان آکر آباد ہوئے تھے۔ محمود غزنوی کا دارالحکومت غزنی شہر تھا۔ محمود غزنوی نے اپنے افغان لشکر کے ہمراہ (998 سے 1030 تک) ہندوستان پر 17 حملے کیے تھے اور تمام معرکوں میں ناقابل شکست رہا تھا۔ اس نے موجودہ خیبر پختون خوا اور صوبہ پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کر دیا تھا۔
شہاب الدین غوری
سلطان شہاب الدین غوری افغانستان کے شہر غور سے تعلق رکھتے تھے۔ غوری کے پختون ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہی وہ خوش قسمت حکمران تھے جنھوں نے 1192 میں ہندوؤں کے متحدہ لشکر کو شکست دے کر دہلی پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا اور پھر 1857 تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم رہی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے کا سہرا افغانوں کے سر ہے جنہوں نے غوری کے جھنڈے تلے جھاد کا مقدس فریضہ سر انجام دیا۔

خلجی خاندان 1290-1320
کیا آپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ کا شاہی خاندان نسل کے لحاظ سے انگریز نہیں بلکہ جرمن ہے۔ یہی معاملہ خلجی خاندان کا ہے جو صدیوں پہلے افغانستان آکر آباد ہو چکے ہیں ان لوگوں نے اپنی مادری زبان (ترکی) چھوڑ کر پشتو زبان کو مادری زبان کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ اب قبیلہ غلزئی کے نام سے افغان قوم کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کو آج “ترک النسل افغان” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس خاندان نے تیس سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ تمام غیر جانبدار مورخین کے مطابق اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بادشاہ علاؤالدین خلجی اشوکا کے بعد ہندوستان کے سب سے اہل، قابل اور کامیاب حکمران ثابت ہوئے ہے۔ جن کے کریڈٹ پر ہندو مسلم اتحاد، زرعی اصلاحات کے نتیجے میں زیادہ پیداوار، امن و امان قائم رکھنا، معاشی ترقی اور ہندوستان کو منگول آندھی سے بچانا شامل ہیں۔
لودھی خاندان 1451-1526
لودھی سلطنت کا بانی بہلول لودھی تھا جس نے 1451 میں سید خاندان کی حکومت کا خاتمہ کرکے دہلی کے تخت پر قبضہ کیا۔ وہ سید خاندان کے دور میں پنجاب کے گورنر تھے۔ اس کے بعد اس کے بیٹے سکندر لودھی ( اپنا نام نظام خان) بادشاہ بنے۔ 1517 میں ان کی وفات پر ابراہیم لودھی تخت پر بیٹھے۔ ابراہیم اپنے باپ اور دادا کے برعکس زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوئے۔ جن کی وجوہات پختون امراء کو عہدوں سے ہٹانا اور ان کا متکبرانہ رویہ بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کے گورنر پنجاب دولت خان لودھی (ابراہیم کے ہم نسل) نے کابل کے تخت پر بیٹھے مغل بادشاہ بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔ ابراہیم لودھی مغل لشکر کے ساتھ توپیں اور ہاتھی ہونے کی وجہ سے شکست کھا گئے۔ یوں 1526 سے مغلیہ سلطنت کے دور کا آغاز ہوا۔
شیر شاہ سوری
شیر شاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔ ان کے والد کو مغل دربار میں ایک خاص درجہ حاصل تھا۔ شیر شاہ نے 1540 میں مغل بادشاہ ہمایوں کے خلاف کامیاب بغاوت کی۔ ہمایوں تخت تو نہ بچا سکا البتہ اپنی جان بچانے کے لیے ایران فرار ہوا۔ شیر شاہ نے برق رفتاری کے ساتھ ہندوستان کے طول و عرض پر اپنی حکومت قائم کی۔ اور اگلے سات برسوں تک ہندوستان پر ایسی حکومت کی کہ بعد میں آنے والے مغل حکمرانوں نے ان کی طرز حکمرانی کی پیروی کی۔ مورخین کے مطابق شیر شاہ کے پیروی کرنے کی وجہ سے مغلیہ دور کو “ہندوستان کا سنہری دور” کہا جاتا ہے۔ شیر شاہ سوری کو پشاور سے کلکتہ تک جی ٹی روڈ کے قیام کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے آج شیرشاہ ترقی کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر جب سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے ملک میں موٹروے کے جال بچھانے کا منصوبہ پیش کیا تو مخالفین کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا کہ موصوف شیر شاہ سوری بننا چاہتا ہے۔ شیر شاہ کے جلد انتقال ہونے کی وجہ سے دہلی کا تخت ان کے جانشینوں کو ملا اور سات سال بعد 1555 میں مغل فرمانروا ہمایون ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا دربار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
احمد شاہ ابدالی
احمد شاہ کو جدید افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے اس نے نہ صرف افغانستان کو ایران سے آزاد کروایا بلکہ ایران کے ایک بڑے علاقے کو افغانستان کے ساتھ شامل کروایا۔ بابا پختونوں کے اتحاد کے متمنی تھے یوں پختونخوا کا دورہ کر کے تمام پختونوں کا ایک لشکر تیار کیا اور اسی لشکر نے احمد شاہ کے پرچم کے نیچے 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں ہندو مرہٹوں کو شکست سے دوچار کیا جو مسلم حکومت کے لیے خطرہ بن چکے تھے، جنگ میں فتح حاصل کرنے کے نتیجے میں کابل سے کلکتہ تک پختونوں کی حکومت قائم ہو چکی، لیکن احمد شاہ نے دہلی کے تخت پر خود بیٹھنے کے بجائے مغل حکومت کو قائم رہنے دیا، کیونکہ آپ کی دل میں افغانستان بستا تھا۔ اس عظیم بادشاہ نے ایک موقع پر اپنے دل کی آواز اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کیا۔

د ډلي تخت هيرومه چې راياد کړم
زه د ښکلې پختونخوا د غرو سرونه
مطلب یہ کہ میں دلی کی تخت پر اپنے وطن کے پہاڑوں کی چوٹیوں کو ترجیح دیتا ہوں۔ احمد شاہ کے ہندوستان میں آمد اور فتح کے ساتھ ہی پختون تمام ہندوستان میں پھیل چکے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز دور شروع ہونے سے پہلے شاہی ریاستوں میں سے بیشتر کے حکمران پختون تھے اور آج بھی ہزاروں، لاکھوں ہندوستانی جو پشتو بھی نہیں بول سکتے، اپنے آپ کو ان افغان راجاؤں اور شہزادوں کے اولاد بتلاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف افغانوں نے اپنے ملک سے باہر جا کر حکومت قائم کی بلکہ پختون بھی کبھی مغلوں کے غلامی میں رہیں تو کبھی فارسیوں، سکھوں اور انگریزوں کے۔ مگر وہ باتیں جن پر افغان بحیثیت قوم فخر کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی غلامی کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور موقع ملتے ہی غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے میدان جنگ میں کھود پڑتے۔ “پختونوں کے غلامی کا زمانہ سب سے کم ہے” یہ جملہ دراصل بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے دورہ پشاور کے دوران کہا تھا۔
سپر پاور کی کہانی، زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک
کیا افغان/پختون نسلاً بنی اسرائیل ہیں
میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں
Greatly explains# amzaing# keep it up# very informative# good# to see#
Very informative ❤️
Amir sir the gr8
ډير جوند او صحت درته غواړم سر جي
Very informative Sir
Masha Allah g keep it up ❤
مورې پښتون له مې ور نه کړې
پردې جنګونه په سر اخلی مړ به شینه !
#پښتو_ټپه
تاسو ته ډالۍ سرجی
واہ
Masha Allah sir g keep it up , ❤
Mashallah SirG great 👍
Well written and composed. Brief and informative. God speed!
Very informative sir.
Sir please write a small brief on Ahmad shah durrani we will be very thankful. ❤️.
Regards from your student.
Shamweel kha
Deal is done
Sure, insha’Allah
Ma Sha ALLAH , so poree che pukhtanu khpal rawayaat jwandee satal nu pa poraa dunya kee he ochat makam hu ao os khu bas de ta patee de che zulam pe oshe😥ka khpal zaan ao abaa o ajdaad opejanee nu bia ba khpal rok makam tar lasa kee