مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
مشہور ہندوستانی موٹیویشنل سپیکر سندیپ مہیشوری اپنے اکثر ویڈیو میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر ایک شخص نے بکریوں کی طرح “میں، میں” کا رٹہ لگائے رکھا ہے جبکہ حقیقت میں “میں” ہے ہی نہیں۔ کیونکہ ہم ایک دوسرے سے ذہنی اور جسمانی طور پر اگرچہ الگ ہے لیکن حقیقت میں ہم ایک ہیں۔ وہ اس کا مثال یہ دیتے ہیں کہ جیسا کہ پانی میں بلبلا ہوتا ہے تو ایک لحظے کے لیے وہ بلبلا بھی اپنے آپ کو “میں” کہتا ہے لیکن حقیقت میں بلبلا کچھ نہیں بس پانی ہے۔ سندیپ کے منہ سے یہ بات سن کر ایک استاد کی حیثیت سے میرے سامنے دو کام تھے پہلا یہ کہ اسلام کی روشنی میں اس دعوے کی حقیقت کیا ہے دوسرا یہ کہ میں اپنے شاگردوں اور علم کے شوق رکھنے والوں کو یہ بات سمجھاؤں گا کیسے۔ اب تھوڑی بہت تیاری کرکے “ہم ایک ہیں” کہ اس دعوے کو آسان زبان اور انداز میں آپ کے سامنے رکھنے کا جسارت کر رہا ہوں.
آج کی دنیا میں ہم جس ملک میں بھی رہ رہے ہیں تو ہم میں سے ہر شخص کی آمدن ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا کی معیشت کا حصہ ہے اور اس سے الگ نہیں ہے۔ اسی طرح دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی شخص ایک درخت کاٹ دے تو یہ کام صرف اس شخص کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ماحول میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم باریکی سے غور کریں تو جب ہم کسی کو دھوکا دیتے ہیں تو وہ حقیقت میں ہم اپنے آپ کو ہی دھوکہ دیتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ گناہ ہے دوسرا یہ ہماری بدنامی کا سبب بنتا ہے اور تیسرا ہمیں اس کے لیگل نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسلام کیا کہتا ہے
اسلام کی روشنی میں اس نظریے کا جائزہ لیں تو اس کے حق میں بہت سارے دلائل موجود ہیں مثلاً کہ کیا سارے انسان آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کے اولاد نہیں ہیں؟ کیا تمام مخلوق خدا کے اہل وعیال نہیں؟ کیا ایک انسان کو بچانا یا قتل کرنا پوری انسانیت کی بچاؤ یا قتل نہیں ہے؟ ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں جب گھر میں ماں بیمار ہو تو کیا ہم چین سے سو سکتے ہیں اسی طرح ہر ماں میں ہمیں اپنی ماں نظر آتی ہے، ضرورت صرف محسوس کرنے کی ہے۔
وحدت الوجود کا نظریہ
ہزاروں مسلم صوفیاء اس نظریہ کے قائل ہے اس نظریے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں وجود صرف خدا کا ہے خدا کے علاوہ باقی جو بھی ہے وہ خدا کے وجود کی تجلی، ظہور یا سایہ ہے ایک تو یہ کہ خدا کے علاوہ تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے جیسا کہ ہم نے بلبلے کا مثال دیا، دوسرا یہ کہ تمام چیزیں اپنے وجود کے لئے خدا کی ذات کے محتاج ہیں۔ جب وجود صرف خدا کے لئے ہے تو پھر “میں” کیسے باقی رہے گا۔ تصوف میں اس “میں” یعنی خودی، خود پسندی، تکبر کو ختم کرنے کا نام تزکیہ نفس ہے، یعنی نفس کی غلامی سے آزادی۔ اب یہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ اسلام بھی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔

“میں” ختم کرنے کا فایدہ کیا ہے
اسی “میں” سے آزادی کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہے کہ پھر ہمیں لوگوں کے ہمارے بارے میں تبصروں خواہ تعریف ہو یا تنقید سے نہ کوئی خوشی ہوگی نہ دکھ۔ اور صرف اس ایک فایدے سے ہماری زندگی بدل سکتی ہے۔
آزادی یا غلامی، کیا میں خود غلام تو نہیں؟
میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں
مادیت بمقابلہ روحانیت، یہ روحانیت کیا چیز ہے
Fantastic very great…
😇😇😇
😇 zabardast