کیپیٹلزم، کمیونزم اور اسلامی معاشی نظام

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

کیپٹلزم کو اردو میں سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کو اشتراکی نظام کہا جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے متضاد معاشی نظام ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ دراصل ان دو مخالف نظریات کے درمیان ایک ٹھکراؤ تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام نظریہ انفرادیت اور اشتراکی نظام نظریہ اجتماعیت کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ نظریہ انفرادیت اور اجتماعیت کیا ہیں۔

نظریہ انفرادیت و نظریہ اجتماعیت

نظریہ انفرادیت کو انگریزی میں Individualism کہتے ہیں اس نظریہ کے مطابق فرد معاشرے اور قوم کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ نظریہ اجتماعیت (Collectivism) اس کے مقابلے میں معاشرے اور قوم کو زیادہ اہمیت دیتی ہے، یعنی کہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے مخالف اور انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔

دونوں نظریات کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ علامہ اقبال نے اپنے دو اشعار میں بہت خوب صورتی سے اسلام کا موقف بیان کیا ہے کہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یعنی کہ یہ اقوام تو افراد سے بنتی ہیں تو بھلا فرد کیسے غیر اہم ہو سکتا ہے۔ دوسرے شعر میں کہتے ہیں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

کہ دراصل فرد کی اہمیت قوم ہی کی وجہ سے ہے اگر وہ قوم سے ناتا توڑ ديں تو ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو فرد اپنی جگہ پر اہم ہے اور قوم اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی پر یقین رکھتا ہے، یہاں بھی دو انتہاؤں کے درمیان درمیانی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)

سرمایہ دارانہ نظام ہزاروں سال پہلے وجود میں آچکا تھا۔ جب سے بادشاہوں کی طرف سے عام لوگوں کو کاروبار دینے کا حق دیا گیا جیسا کہ آج سے ڈیڑھ، دو ہزار سال قبل بھی عرب لوگ تجارت کے لیے ہندوستان و شام آتے جاتے رہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا شکل تبدیل ہوتا رہا مثلاً زمانہ قدیم میں سرمایہ دار صرف تاجر ہوتے تھے جبکہ یورپ میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد کارخانہ دار بھی اس میں شامل ہوئے۔

ایڈم سمتھ

اس نظریے کی آسان تعریف یہ ہے کہ کیپیٹل ازم وہ معاشی نظام ہے جس میں پیداوار اور آمدن کے تمام ذرائع نجی شعبہ (پرائیویٹ سیکٹر) کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ یعنی کارخانہ، کھیت، دکان، بینک، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کاروبار چلانے والے عوام میں سے ہوتے ہیں۔ حکومت کا کاروبار سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ حکومت کا کردار محض ایک ریگولیٹر اور پالیسی ساز کا ہوتا ہے۔

کیپیٹل ازم کا نظریہ کس نے پیش کیا

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ یہ ایک پرانا نظام ہے مگر اس کو ایک نظریہ کی شکل اور ایک جدید معاشی نظام کا درجہ دینے کا سہرا ایڈم سمتھ کے سر ہے۔ سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سمتھ نے معاشیات (اکنامکس) پر اتنا کام کیا کہ انہیں جدید معاشیات کا باپ کہا جاتا ہے۔

کیپیٹل ازم کی خامیاں

اس نظریہ کے حامی کہتے ہیں کہ حکومت کا کاروبار سے کیا لینا دینا؟ دراصل کاروبار تو پرائیویٹ سیکٹر کا کام ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے مگر اگر حکومت کے پاس پیسے ہیں اور پیسوں کے ذریعے ایک منافع بخش سیکٹر میں سرمایہ کاری کر کے ریاست کی آمدنی کو بڑھائے، تو ان میں برا کیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی توجہ صرف زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے پر ہے۔ یہاں حلال، حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی تصور نہیں اور اگر کوئی ان کاروباری افراد کے سامنے حلال، حرام کا تذکرہ کریں تو ان کو بے وقوف یا زمانہ قدیم کا شخص کہا جاتا ہے جن کے خیالات دور جدید سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں کامرس اور ایم بی اے کے کورسز میں طلباء کو پڑھایا جاتا ہے کہ آپ کیسے اپنا غیر معیاری پراڈکٹ دوسروں کے معیاری پراڈکٹ سے اچھا ثابت کر کے فروخت کریں گے اور اسے Business Techniques یا Business Tactics کا نام دیا جاتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ میں جہاں بہت زیادہ دولت دیکھتا ہوں تو مجھے اس میں لوگوں کے حقوق نظر آتے ہیں اب ظاہر ہے کہ دھوکہ دہی کے ذریعے پیسہ کمانے والوں کے اس دور میں ہزاروں، لاکھوں لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں لیکن اس کا نقصان معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو ہوتا ہے۔ کیپٹلیزم وہ نظام ہے جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ پچھلے دو سال میں دنیا کے ارب پتیوں کی دولت دگنی ہو چکی ہے۔ گوگل، ایپل، میٹا اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں کی سالانہ بجٹ دنیا کے اکثریتی ممالک کی بجٹ سے زیادہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف دنیا میں ایک ارب لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں اور مزید ایک ارب مشکل سے روٹی پیدا کرکے کھا کر سو جاتے ہیں۔ دنیا کے 10 فیصد لوگوں کے ساتھ ساتھ دولت دنیا کے باقی 90 فیصد لوگوں کی دولت سے زیادہ ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار بھی یہی سرمایہ دار اور کارخانہ دار لوگ ہیں۔ جو بدلے میں ماحول کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اب اچھے لوگ تو ہر جگہ، ہر برادری اور شعبے میں ہوتے ہیں۔ ان امیر ترین لوگوں میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ مختلف طریقوں سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عوام کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔

کمیونزم

کمیونزم کا نظریہ دراصل کیپیٹل ازم کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسے پیش کرنے والا انیسویں صدی کا عظیم جرمن مفکر، فلسفی اور ماہر معاشیات کارل مارکس تھے۔ آپ نے سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس نظام میں انسانیت کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں ہیں۔ یہ صرف مالداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

کمیونزم مکمل طور پر کیپٹلزم کا الٹا نظام ہے یعنی کہ پیداوار اور آمدن کے تمام ذرائع ریاست کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اس نظام میں نجی سرمایہ کاری اور کاروبار کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پرائیویٹ کاروبار پر مکمل پابندی عائد ہوتی ہے۔ صنعت، زراعت اور خدمات ریاست کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ کارخانہ، کھیت اور دکان میں کام کرنے والے ریاست کے ملازمین ہوتے ہیں۔ ریاست کی تمام آمدنی ایک جگہ جمع ہوتی ہے اور پھر ان کو تمام لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کیا جاتا ہے۔ عوام کے درمیان دولت کی برابری سے تقسیم کے پیچھے کارل مارکس کا مقصد یہ تھا کہ وہ معاشی طبقات سے مبرا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی امیر، مڈل مین اور غریب نہ ہو بلکہ تمام برابر ہو۔

کمیونزم میں برا کیا ہے

سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ تو یہ ہے کہ یہ نظام انسان کو اپنی ذاتی جائیداد اور کاروبار کے حق سے محروم کردیتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ انسان فطرتاً یہ چاہتا ہے کہ ان کی اپنی ملکیت میں کچھ نہ کچھ ہو اور اس پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے اپنے گھر کے سامنے والی سڑک یا نہر کو اپنی سڑک یا نہر کہتے ہیں، حالانکہ سڑک یا نہر کسی کے نہیں ہوتے۔ اس لئے تو علامہ اقبال نے اس نظام کے بارے میں کہا

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

تمام لوگوں کے درمیان آمدنی کی برابر تقسیم کا نعرہ ظاہری طور پر انتہائی پر کشش ہے۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کئی خامیاں ہیں مثلاً کہ کیا خدا نے تمام لوگوں کو پیسہ کمانے کی صلاحیت ایک جیسی عطا کی ہے؟ کیا تمام لوگوں کی کام کرنے کی رفتار اور معیار ایک جیسی ہے؟ اس لیے تمام لوگوں کو برابر تنخواہ دینا غلط ہے۔ جب تمام لوگ معاشی طور پر برابر ہوجائے تو سخت گرمی یا سردی میں جسمانی طور پر سخت کام کون کرے گا؟ اور کوئی مرد یا عورت کسی دوسرے گھر میں خادم کے طور پر کام کیوں کرے گا؟ سادہ الفاظ میں تمام لوگ مالی طور پر برابر ہو جانے سے دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی مالدار تھے، تو آپ نے تو کبھی بھی عثمان کو یہ نہیں کہا کہ میں آپ کی پوری یا آدھی دولت کو مدینہ کے لوگوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔

کن کن ممالک میں کیپیٹل ازم یا کمیونزم رائج ہیں

کیپٹلزم تو پہلے سے دنیا میں لاگو تھا اور آج تک ہے جب کہ کمیونزم 1917 میں روس میں اور 1949 میں چین میں رائج ہو چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد روس نے عالمی طاقت کی حیثیت سے کمیونزم کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا اور اسے آدھی دنیا میں رائج کیا۔ 1991 میں روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد کمیونزم کا عملی طور پر خاتمہ ہوا۔ روس کے زیر اثر باقی ممالک نے بھی آہستہ آہستہ کمیونزم کو الوداع کہا اور آج کی دنیا مکمل طور پر کیپیٹل ازم کی لپیٹ میں ہے۔

اسلامی معاشی نظام

اوپر بیان کئے گئے دونوں نظریات انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اسلام کا اپنا ایک الگ معاشی نظام ہے جو کمیونزم اور کیپٹلزم سے بدرجہا بہتر ہے مگر افسوس کے ساتھ آج کی دنیا میں کسی بھی مسلم ملک میں وہ نظام رائج نہیں ہے۔ اس لیے مسلم دانشور اس معاشی نظام کو دنیا کے سامنے ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔

اسلامی معاشی نظام کی خوبیاں

اسلام اعتدال پسندی کا دین ہے اس لئے دونوں نظریات کیپیٹل ازم اور کمیونزم کے درمیان درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے کہ سرکار اپنے طور پر اور پرائیوٹ سیکٹر اپنے طور پر کاروبار کر سکتے ہیں، کسی پر بھی کاروبار کرنے کی پابندی عائد نہیں ہے۔

اسلامی معاشی نظام میں کاروبار کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ یہ صرف پیسہ کمانے کا چکر نہیں ہے، ناجائز طریقوں سے پیسہ کمانے کو گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ دھوکہ دہی، ذخیراندوزی، سمگلنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور سود کو تو خدا کے ساتھ جنگ کا نام دیا گیا ہے۔

جس نے جتنے پیسے کمائیں وہ صرف ان کے نہیں ہیں بلکہ خدا کی طرف سے ان پر 2.5 فیصد کے حساب سے سے زکوۃ (ٹیکس) عائد کیا گیا ہے۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ اگر صرف پاکستان میں ارب پتی اور کروڑ پتی افراد ایک سال ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کی زکوٰۃ ادا کریں تو کتنے غریبوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح صدقات کو خدا کا غصہ ٹھنڈا کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام دولت کی ارتکاز کے بجائے دولت کی گردش چاہتا ہے اور اس میں معاشرے کی بھلائی بھی ہے۔

انصاف اور مساوات پر مبنی اس معاشی نظام کو خلفائے راشدین کے دور میں لاگو کیا گیا تھا۔ تو دنیا نے دیکھا تھا کہ پھر مدینہ میں زکوۃ کا مستحق دستیاب نہیں تھا اور صحابہ کرام دولت کی فراوانی کو دیکھ کر ڈر گئے تھے کہ کہیں خدا ہمیں اپنی قربانیوں کا بدلہ دنیا میں تو نہیں دے رہا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *