کیا ہم بین الاقوامی سیاست کے ایک تاریخی دور میں جی رہے ہیں ؟

مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )

اٹھارویں اور انیسویں صدی یورپی طاقتوں کا دنیا کے بیشتر حصے پر قبضے کی وجہ سے یاد کی جاتی ہیں تو گزشتہ صدی عالمی جنگوں اور آزادی کی تحریکوں کے نتیجے میں درجنوں نئے ممالک کے قیام کی وجہ سے ۔ اگر چہ موجودہ صدی میں اسی طرح کے کوئی غیر معمولی حالات نہیں ہیں لیکن پھر بھی دنیا کے بیشتر اہم ممالک میں کچھ نہ کچھ یا زیادہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو تاریخی ہیں ۔ آئیے اس بین الاقوامی منظر نامے کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔

چین

چین میں گزشتہ ایک دہائی سے شی جن پنگ صدر کے عہدے پر براجمان ہے اور وہ جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کے بعد ملک کے سب سے بااثر اور طاقتور ترین رہنما کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدر شی کے خیالات کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے اور انہیں تاحیات صدر بنانے کے بارے میں قانون سازی کا پلان بھی بنایا گیا ہے ۔ شی کے دور میں چین امریکا کے مد مقابل کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ مغرب چین کو اپنے لئے سب سے بڑے خطرہ قرار دے چکا ہے ۔

روس

فوربز میگزین نے ولادیمیر پوٹن کو دنیا کے سب سے طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے ۔ پوٹن کی روس پر حکمرانی تیسرے عشرے میں داخل ہوچکی ہے ۔ اگر لینن کے دور میں کمیونسٹ روس کی بنیاد رکھی گئی تھی تو پوٹن کے دور میں روس ٹکڑے ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر سپر پاور بن چکا ہے یعنی زوال کے بعد پھر عروج ۔

امریکہ

سب سے پہلے تو صدی کے اوائل کے بر عکس اب امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور نہیں ہے بلکہ چین اور روس ان کے ہم پلہ بن چکے ہیں ۔ اندرونی طور پر اگر چہ امریکا میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں ان کی حمایتیوں کا کیپٹل ہل پر حملے جیسے واقعات جمہوریت کے امام کہلانے والے اس ملک کے شہریوں کے لیے انتہائی حیران کن تھے ۔ یاد رہے کہ ٹرمپ آئندہ صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی کامیابی کی صورت میں امریکہ اور بین الاقوامی تعلقات میں مزید غیر متوقع تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں ۔

یورپ

یورپ کے اندر برطانیہ ، فرانس اور جرمنی جیسی طاقتیں موجود ہیں لیکن پھر بھی یہ مالدار ترین براعظم بین الاقوامی تعلقات میں ایک طرف چین اور امریکہ کے درمیان بری طرح پھنس چکا ہے تو دوسری طرف اسے روس کی شکل میں بہت بڑے خطرے کا سامنا ہے ۔ آسان الفاظ میں مجموعی طور پر پورا براعظم یورپ بھی معاشی ، سیاسی اور فوجی لحاظ سے چین ، امریکہ اور روس میں کسی ایک کے مقابلے کی بھی نہیں ۔

ہندوستان

نریندر مودی کا ہندوستان جواہر لال نہرو کے ہندوستان سے مکمل طور پر مختلف ہے ۔ ماضی کا سیکولر اور جمہوری بھارت آج فسطائیت کے راستے پر گامزن ہے ۔ مودی ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد ملک کے سب سے مضبوط حکمران بن چکے ہیں ۔ بھارت پر سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والی کانگریس پارٹی آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ آئندہ انتخابات میں نریندر مودی کی بی جے پی کی جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ جس سے بین الاقوامی تعلقات میں بھارت کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے مگر اندرونی طور پر ہندوستانی معاشرہ ، جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق ، سیکولر ازم اور شہری آزادیوں کو مزید خطرات درپیش ہوں گے ۔

عرب دنیا

عربوں اور یہودیوں کی روایتی اور تاریخی دشمنی دوستی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پراکسی وار ختم کرنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔اس معاہدہ کرانے سے چین نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ سعودی عرب میں عملی طور پر اقتدار ملک کے بانی ملک عبدالعزیز کے پوتے اور تیسری نسل کے نوجوان شہزادے محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں آ چکی ہے جس نے سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے کو جدیدیت کے راستے پر ڈال دیا ہے ۔

ترکی

طیب اردوغان 2003 سے ترکی پر حکومت کر رہے ہیں ۔ کسی کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سیکولر ترکی پر دائیں بازو کی مذہبی سیاست کے علمبردار جماعت مسلسل دو عشرے سے زائد عرصہ تک حکومت کریں گی ۔ اردوغان کو بابائے قوم مصطفی کمال پاشا کے بعد ملکی تاریخ کا سب سے مضبوط حکمران قرار دیا جاتا ہے ۔ 28 مئی 2023 کو صدارتی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ان کی حکومت تیسرے عشرے میں داخل ہوچکی ہے ۔ ترکی آج بین الاقوامی تعلقات میں ایک فعال کردار ادا کر رہا ہے ۔

پاکستان

پاکستان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بار بار دہرایے جانے والے تجربات ، عدالتی مارشل لاء اور حالیہ پی ٹی آئی و پی ڈی ایم کی منفی سیاست کی وجہ سے آئینی ، سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کی لڑائی نے عوام اور ارباب اختیار کو بہت کچھ سکھایا ۔ پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ پانے کے لئے بہت کچھ ہیں مگر کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ، آگے لوہار جانے اور انگار جانے ۔

آج کا طالب علم ؛ چیلنجز اور مواقع

اسلامی دنیا ؛ بنیادی معلومات

سپریم کورٹ فیصلوں کی تاریخ ؛ کچھ اچھے کچھ برے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *