کیا واقعی قیس عبدالرشید پختونوں کے جدامجد تھے؟

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پختونوں کا مسکن: افغانستان، پاکستان کا سرحدی علاقہ

پختونوں کی تاریخ کے بارے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہے۔اگر ہم ان تمام کتابوں کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 80 فیصد لکھاری قیس عبدالرشید نامی شخص کو پختونوں کا جدامجد قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ اکثر مورخین تو پختونوں کا شجرہ نسب قیس سے شروع کر رہے ہیں۔ اس کالم میں ہم قیس عبدالرشید کے بارے میں جانیں گے۔

وہ مورخین جو پختونوں کو بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق قیس عبدالرشید ، بنی اسرائیل بادشاہ طالوت کے تقریباً 37ویں پشت میں گزرا ہے۔ قیس چھٹی صدی عیسوی میں وسطی افغانستان کے علاقہ غور میں پیدا ہوئے تھے۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا آخری پیغمبر بنایا۔ اور یہ خبر افغانستان پہنچ گئی۔ تو قیس کی قیادت میں پختونوں کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مدینہ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ قیس کی پہلے سے مشہور صحابی خالد بن ولید سے دوستی تھی۔ اس وجہ سے خالد بن ولید ہی نے قیس کی ملاقات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کروائی۔ قیس اسی ملاقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں پر مسلمان ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکا نام عبدالرشید رکھا۔ اس ملاقات کے بعد خالد بن ولید نے اپنی ایک بیٹی قیس کو نکاح میں دے دی۔  یہی وجہ ہے کہ پختون اپنے آپ کو خالد کے نواسے کہتے ہیں۔  جیسا کہ ایک پشتو شاعر کہتے ہیں۔

مونږه نواسي يو د خالد تاريخ ګواه دی زموږ

مونږ په يوه باندې پوهيږو دوه او درې نه منو 

یعنی کہ ہم خالد بن ولید کے نواسے ہیں، ہم منہ میں ایک زبان رکھتے ہیں دو اور تین نہیں، اور ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ 

کوہ سلیمان کے پہاڑ، پختونوں کا اولین مسکن

قیس کے اس واقعے کا ذکر نعمت اللہ الحراوی کی کتاب” تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی” میں پہلی مرتبہ کیا تھا۔ یہ وہی کتاب ہے جس میں پہلی مرتبہ یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ پختون بنی اسرائیل کا ایک گمشدہ قبیلہ ہے۔

اب ان دانشوروں کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو قیس عبدالرشید کے وجود سے ہی سرے سے انکاری ہیں۔  پہلا یہ کہ حدیث کی کتابوں میں قیس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اسماءالرجال میں جن لاکھوں لوگوں کے شجرے موجود ہیں۔ ان میں بھی قیس عبدالرشید کے نام سے کسی شخص کا ذکر موجود نہیں ہے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے دانشور پروفیسر اسماعیل قیس کے واقعے کو مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ مورخ و محقق ڈاکٹر ضیاء اللّٰہ جدون بھی قیس کو ایک فرضی کردار قرار دے رہے ہیں۔

پختون قیس عبدالرشید کے اولاد ہیں یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو اپنے پردادا کا نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ تو پھر ان باتوں کا کیا فایدہ۔ دوسرا یہ کہ ہمارا تاریخ انتہائی شاندار ہے۔ جن میں قیس کے علاؤہ بے شمار لوگ ایسے گزرے ہیں۔ جن پر ہم فخر کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی ماضی سے صرف سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ جینا تو حال میں ہوتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *