مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

افغانوں کی ابتدا کے بارے میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ جس میں یہ نظریہ کہ افغان نسل کے لحاظ سے بنی اسرائیل ہیں، سب سے زیادہ مقبول ہے۔ پختونوں کی اکثریت بھی اس نظریہ کے قائل ہیں۔ بنی اسرائیل خدا کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کے اولاد سے بنے بارہ قبائل کو کہا جاتا ہے۔ جن کی اکثریت آج کل فلسطین کے زمین پر قائم ملک اسرائیل میں آباد ہیں۔ اس کالم میں اس نظریہ کی حقیقت پر بحث کریں گے۔
یہ نظریہ دراصل سب سے پہلے مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں ایک کتاب”تاریخ خان جھانی و مخزن افغانی” میں پیش کیا گیا۔ اس کتاب کے مصنف نعمت اللہ الحراوی نے پختونوں کو بنی اسرائیل کا ایک گمشدہ قبیلہ قرار دے دیا۔ اس کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ طالوت کا پوتا ملک افغانہ افغانوں کے جد امجد تھے۔ چونکہ افغانہ بچپن میں یتیم ہوئے تھے، اس لئے آپ کی پرورش پیغمبر خدا حضرت داؤد علیہ السلام نے کی۔ افغانہ بعد میں داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔ یہ 1000 قبل مسیح کی بات ہے جب افغانہ موجودہ افغانستان کے علاقے منتقل ہوئے، یہی وفات پا گئے اور ژوب کے علاقے میں واقع کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں دفن کر دیے گئے۔

اب جو مورخین اور لکھاری اس نظریہ کے قائل ہیں، وہ اسے سچ ثابت کرنے کے لیے جتنے بھی حوالے دے دیں، ان سب حوالوں کا آخری منبع یہی اوپر ذکر شدہ کتاب ہے۔
اس نظریہ کے ماننے والے دلیل کے طور پر پختونوں اور بنی اسرائیل کے درمیان کئی مماثلتیں پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے میں خدا سے بیٹے کے لیے سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ، میں اپنے چچازاد بھائیوں کے سامنے کمزور ہو کر رہوں گا۔ عین اسی طرح پختونوں کی بھی پوری زندگی چچازاد بھائیوں سے مقابلے اور موازنے میں گزر جاتی ہے۔ یا یہ کہ بنی اسرائیل کے خواتین افغان خواتین کی طرح حیرانی کا اظہار اپنی انگلی چہرے پر مار کر کرتی ہیں ۔ اس کے علاؤہ دونوں گروہوں کے اکثریتی افراد ضدی، انتقام لینے والے، ہار نہ ماننے والے، انتہا پسند اور زیادہ مذہبی ہیں۔

اس نظریہ سے اختلاف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نعمت اللہ الحراوی کے کتاب کے علاؤہ تاریخ کے کسی بھی کتاب میں اس نظریہ کا ذکر نہیں ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پختونوں اور بنی اسرائیل کا رشته آج بھی ایک معمہ ہے۔ میرے خیال کے مطابق پختون بنی اسرائیل ہیں یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم آج علمی، سماجی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے دنیا کے دوسرے اقوام کے مقابلے میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔ اور ہمیں کس مقام پر ہونا چاہئیے تھا۔ اسی دوڑ میں سمجھداری کے ساتھ آگے نکلنا چاہیے۔
👌Great