مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
پختونوں کی موسیقی سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ صدیوں سے اپنے حجروں میں محفل موسیقی منعقد کراتے رہے ہیں۔ پشتو کی کلاسیکی موسیقی کی ابتدا عادل شاہ سوری سے ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ عادل شاہ سوری کون تھا؟ عادل شاہ سوری ہندوستان کے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کا بیٹا تھا۔ وہ کتنے بڑے موسیقار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ برصغیر کے صف اول کے موسیقار (اکبر بادشاہ کے دربار کے موسیقار) تان سین اور ریاست مالوہ کے بادشاہ باز بہادر مالوہ ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
پشتو موسیقی کا پہلا دور 1905 سے شروع ہوتا ہے جب انگریزوں کے قائم کردہ دلی ریڈیو سٹیشن سے پشتو گانے ریکارڈ ہونا شروع ہوئے۔ اسی دور میں عبداللہ جان استاد، صحبت خان استاد، خاتون گلوکارہ چشتی ملنگ جان، مہر النساء (کشور سلطانہ کی والدہ)، زر خان اور سبز علی خان استاد پختونوں کے کانوں میں اپنے گانوں کے ذریعے رس گھولتے رہیں۔ اس دور کی ایک خاصیت یہ تھی کہ یہ تمام فنکار خداداد صلاحیت کے مالک تھے، موسیقی کے شوقین تھے، میراثی نہیں تھے۔ مشہور پشتو موسیقار سردار علی ٹکر کے مطابق ان لوگوں نے ایسا کام کیا ہے کہ وہ آج بھی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً زر خان نے اتنے بلند پچ پر گانا گایا کہ ان پر کسی خاتون کے آواز کا گمان ہوتا تھا۔
پشتو موسیقی کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب سابق وزیراعلی خیبر پختونخواہ صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی کوششوں سے پشاور میں ریڈیو سنٹر کھولا گیا۔ اب یہاں سے گانے ریکارڈ ہونا شروع ہوئے۔ یاد رہے کہ آزادی کے وقت پاکستان میں صرف دو ریڈیو سٹیشن تھے ایک لاہور اور دوسرا پشاور کا۔ اسی دور کا سب سے بڑا نام خیال محمد تھے۔ جن کے ساتھ دیگر گلوکار ہدایت اللہ، احمد خان، گلناربیگم اور کشور سلطانہ تھیں۔ اسی دور کا اہم کارنامہ یہ تھا کہ غزل موسیقی کا حصہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ آج خیال محمد کو موسیقی میں غزل کا بادشاہ یا پشتو کے مہدی حسن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چونکہ لوگ غزل کے رموز و اوقاف سے ناواقف تھے۔ اس لیے ایسا بھی ہوتا کہ ریڈیو سٹیشن کو بھیجے گئے خطوط میں یہ مطالبہ کیا جاتا کہ خدارا خیال محمد اور ہدایت اللہ کو ریڈیو سٹیشن سے ہٹا دیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خیال محمد نے پشتو موسیقی کی ایک لازمی باب کی حیثیت حاصل کر لی۔ اور اگر آج خیال محمد اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے موسیقار ناشناس کو پشتو موسیقی سے ہٹایا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

دوسرے دور میں موسیقی کی ترقی میں کردار ادا کرنے میں اجمل خٹک کا نام بھی شامل ہے جس نے کئی لوگوں کو ریڈیو کے ذریعے اپنا آواز عوام تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔ اسی طرح رفیق شینواری بڑی محنت سے کمپوزنگ کا کام کرتے اور ان کے بنائے ہوئے طرزوں پر پھر خیال محمد گانے ریکارڈ کراتے۔ اسی دور کے اکثر گلوکار ان پڑھ تھے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے ریڈیو کے پروڈیوسر صاحبان ان کے ساتھ بہت محنت کرتے۔
پشتو موسیقی کا تیسرا دور موجودہ دور ہے جس میں نظم، آزاد نظم اور طویل نظم بھی موسیقی کی آلات کے ساتھ گائے گئے۔ اس دور میں سامنے آنے والے گلوکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر وہ گلوکار جنہوں نے اپنی ایک شناخت بنائی اور جن کو جونئیر گلوکاروں نے فالو کیا وہ گلزار عالم، سردار علی ٹکر، احمد گل استاد، مہ جبین قزلباش، شاہ ولی استاد، نغمہ، وگمہ، مینگل استاد، ہارون باچا اور کرن خان شامل ہیں۔
تیسرے دور میں پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر کے آباد ہونے سے پشتو موسیقی نے بہت ترقی کی۔ لوگ اپنے پسندیدہ گلوکاروں کو ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور پھر جب یہ گلوکار عوام کے درمیان جاتے تو ان کی بہت عزت کی جاتی۔ انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے تین چار دہائیوں تک پی ٹی وی کو بڑے شوق سے دیکھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی نیا گلوکار صرف ایک یا دو مرتبہ ٹی وی پر پر نمودار ہوتا تو پورے خیبر پختونخوا میں ان کو شناخت مل جاتی۔ یہ نوجوان گلوکاروں کے لئے ایک قسم کا موٹیویشن بھی ہوتا تھا۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے برعکس پشتو فلموں نے موسیقی کی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔ کیونکہ ابتدائی معیاری فلموں کے بعد جب غیر معیاری فلمیں بننے لگیں تو عوام کے ایک بڑے اور سمجھ دار طبقے نے سنیما سے اپنے آپ کو الگ کر دیا۔
اس دور میں ٹیپ ریکارڈ کے کیسٹ کے ذریعے گلوکاروں کے البمز ریلیز ہوتے رہیں، جس کی وجہ سے موسیقاروں اور عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم رہا۔ حجاموں اور درزیوں کی دکانوں پر، سڑکوں پر چلنے والی بسوں رکشوں میں، یا کھیتوں میں کام کرنے والے زمینداروں اور کسانوں کے درمیان اس ٹیپ ریکارڈ کیسٹس کے ذریعے اکثر موسیقی کا سماں باندھا ہوا ہوتا ۔ مگر دوسری طرف اس کا ایک منفی پہلو بھی تھا کہ مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ سے البمز فروخت کرنے کی دوڑ کی وجہ سے بعض گلوکاروں نے غیر معیاری شاعری اور موسیقی کا سہارا لیا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں کاپی رائٹ قانون کے نہ ہونے یا عمل میں نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد گلوکار قابل فنکاروں کے گانے اپنے آوازوں میں ریکارڈ کرکے اپنے البمز کا حصہ بنا لیتے۔
پرائیویٹ میڈیا چینل اور خصوصاً انٹرنیٹ آنے کے بعد کا دور پچھلے ادوار سے بالکل مختلف ہے آج گلوکار اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنے گانے ریلیز کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح سلسلہ جاری ہے۔
پشتو شاعری کی تاریخ، حصہ اول: امیر کروڑ سے خوشحال خان خٹک تک
آزادی یا غلامی، کیا میں خود غلام تو نہیں؟
جنرل ضیاء الحق کا ہنگامہ خیز دور حکومت: کیا اچھا کیا برا