مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
موجودہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہیں۔ بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے چینی زبان پہلے، اسپینی زبان دوسرے اور انگریزی زبان تیسرے نمبر پر ہے۔ پشتو زبان اپنے چھ کروڑ بولنے والوں کے ساتھ اس قطار میں 25 ویں نمبر پر کھڑی ہے۔ یوں تو کہا جاتا ہے کہ پشتو پانچ ہزار سال پرانی زبان ہے مگر یہ ایک اندازہ ہے کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔ بعض مورخین کے مطابق پشتو کی عمر دو سے تین ہزار سال کے درمیان ہے۔ یہ زبان پاک افغان سرحد کے آرپار پاکستان اور افغانستان میں بولی جاتی ہے۔ اگر چہ پختونوں کا اپنا وطن افغانستان ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے زیادہ پختون پاکستان میں آباد ہیں۔ جبکہ تارکین وطن افغان ان دو ممالک سے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر زبان میں ادب کا آغاز شاعری سے ہوتا ہے کیونکہ ابتدا کے دور میں نثر لکھنا شاعری کے مقابلے میں مشکل کام ہوتا ہے۔ کیونکہ نابالغ ادب کے اس دور میں آپ شاعری کے ذریعے اپنی جذبات کا اظہار تو کرسکتے ہیں مگر نثر کے ذریعے علمی بحث نہیں۔ پشتو زبان کا پہلا شاعر امیر کروڑ سوری تھا جو آٹھویں صدی عیسوی میں گزرا ہے مگر پشتو شاعری پر تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق امیر کروڑ کی شاعری میں جو پکاپن ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی پشتو میں شاعری ہوئی ہے مگر چونکہ ان شعراء کی شاعری دستیاب نہیں ہے اس لیے ہم امیر کروڑ کو ہی پہلا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔
آپ کی شاعری کا ایک نمونہ
زه يم زمری په دې نړۍ له ما اتل نشته
په سند و هند و پرتحار و په کابل نشته
بل په زابل نشته له ما اتل نشته

یہ نظم اس دور کا ہے جب اردو شاعری شروع ہوئی تھی نہ فارسی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم پر کسی بھی دوسری زبان کا اثر نہیں ہے۔ امیر کروڑ کے بعد پشتو کے دوسرے شاعر بیٹ نیکہ تھے۔ آپ کے شعر کچھ اس طرح تھے۔
لويه خدايه لويه خدايه
ستا په مينه په هر ځايه
غر ولاړ دی درناوي کې
ټوله ژوي په زاري کې
آٹھویں صدی عیسوی سے چودہویں صدی عیسوی تک کے دور کو ہم پشتو شاعری کا پہلا دور کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں پوری شاعری رجزیہ (غیرت، ہمت، بہادری کے موضوعات پر مبنی) تھی یا مذہبی موضوعات پر۔
جیسا کہ بابا ہوتک کچھ اس طرح گویا ہے کہ
ځلمو په غشو کړۍ وارونہ
د تيرو تورو ګوذارونه
وروړاندې کړۍ خپل ټټرونه
په کلي کور باندې مغل راغی
محمود غزنوی کے زمانے کے بعد پشتو شاعری پر فارسی کے اثرات پڑنے لگے اور اسی دور میں اکبر ایک ایسا شاعر تھا جس نے پشتو شاعری میں غزل کو شامل کر دیا آپ کے غزل کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔.
چې مدام و ستا و مخ و ته نظر وړم
د بېلتون له ويرې زړه زير و زبر وړم
که په ما دې حکم وشي چې خادم شه
دغه ستا د نغري انګار په سر وړم
غزل کے شامل ہونے کے ساتھ ہی عشقیہ شاعری کی شروعات ہوئی۔ سولہویں صدی عیسوی میں عظیم پختون رہنما، جنگجو، عالم اور شاعر پیر روشان کی صوفیانہ شاعری کے ساتھ عشق حقیقی اور تصوف کے موضوعات نے پشتو شاعری کی دامن کو مزید کشادہ کیا۔ آپ پشتو کے اولین صوفی شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ پیر روشان کے دیگر صوفی ساتھی مرزا خان انصاری، ارزانی، دولت لوانړی اور مخلص تھے۔ یہ لوگ مشترکہ طور پر پشتو شاعری کے لیے تصوف کی ڈولی لے کر آئے ۔ ہم اسے پشتو شاعری کا دوسرا دور کہہ سکتے ہیں اور اس دور کے خصوصیات، شاعری پر فارسی کے اثرات، غزل کا شاعری میں شامل ہونا، عشقیہ شاعری کی شروعات اور تصوف کا شاعری میں شامل ہونا تھیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پشتو ادب اور شاعری کا سب سے بڑا نام خوشحال خان خٹک ہے۔ آپ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے جو بیک وقت ایک جنگجو، عالم، خٹک قبیلے کا سردار، مغلوں کا منصب دار، بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں بھی آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو دیکھا جا سکتا ہے جن میں عشقیہ شاعری، صوفیانہ شاعری، سیاسی شاعری، اور پختونوں کی بیداری و اتحاد کے لئے پند و نصائح موجود ہیں۔ آپ اور آپ کے گھرانے نے پشتو شاعری کی خلوص دل سے خدمت کی اور پشتو شاعری کے اس باغ کو رنگ رنگ پھولوں سے مزید خوبصورت اور خوشبو دار بنایا۔ خوشحال خان خٹک کی شاعری کے چند نمونے۔
زه خوشحال کمزوری نه يم چې به ډار کړم
په ښکاره نارې وهم چې خوله ئی راکړه
د افغان په ننګ مې وتړله توره
ننګيالی د زمانې خوشحال خټک يم
په جهان د ننګيالو دي دا دوه کاره
يا به وخوري ککرۍ يا به کامران شي
جاری ہے۔۔۔۔
Daa khpalee moranai jabi bara ke deer maloomat hasil kral.
Pingback: خوشحال خان خٹک: ایک عہد ساز شخصیت – Aamir Zaheer