پختونوں کے پہلے عظیم رہنما، آزادی کی جنگ لڑنے والے پہلے ہیرو “پیر روخان”

مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

سولہویں صدی عیسوی کے اوائل میں ہندوستان پر پشتونوں کی حکومت تھی ابراھیم لودھی دہلی کے تخت پر براجمان تھے۔ 1525 میں موجودہ بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر کے مقام پر ایک پختون گھرانے میں بایزید انصاری کے نام سے ایک بچے نے آنکھ کھولی آج دنیا اس بچے کو پیر روخان (روشنی پھیلانے والے مرشد) کے نام سے جانتی ہے۔ صرف ایک سال بعد مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی سے دہلی کی تخت چھین لی تو پیر روخان کے خاندان نے اپنے وطن واپس آنے کا ارادہ کرلیا اور یوں یہ لوگ جنوبی وزیرستان منتقل ہوئے۔ نوجوان پیر روخان نے دینی علوم پر عبور حاصل کی تو پختون بچوں اور نوجوانوں میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے متحرک ہوئے یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ آپ کی پختونوں کو بیدار کرنے، انکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور آزادی حاصل کرنے کی اس تحریک کو روشنائی تحریک کا نام دیا گیا۔

اگرچہ پیر روخان پختونوں کو علم کی راہ پر لانے کا ایک مشکل اور عظیم کام کر رہے تھے لیکن ان کی روح کو اس سے چین حاصل نہیں ہوئی اور اس کی وجہ مغلوں کی غلامی تھی۔ بالآخر اس نے پختون وطن کو مغلوں سے آزاد کرانے کے لئے تلوار اٹھانے کا قصد کر دیا مگر اس کام سے پہلے جنگجو پختون قبائل کو بیدار کرنے اور ان کے درمیان اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا ناممکن کے قریب ٹاسک درپیش تھا مگر جب آپ کی زندگی کا ایک مقصد ہو تو بڑے سے بڑا کام آسان ہو جاتا ہے۔ اگلے چند سالوں میں آپ نے یہ کام کرکے دکھایا اور یوسف زئی سردار کالو خان کی سربراہی میں روشنائی تحریک کے زیر اثر خدوخیل (بونیر) کے مقام پر مغلوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑی گئی۔ مغل بادشاہ اکبر نے جنگ کی قیادت کے لیے اپنے مشہور جرنیل اور قریبی ساتھی بیربل کو چنا۔ گھمسان کی جنگ لڑی گئی اور پختونوں کو فتح حاصل ہوئی۔ بیربل سمیت آٹھ ہزار مغل سپاہی جنگ میں مارے گئے۔

پير روخان

اسی سال یا اگلے سال پختونوں اور مغلوں کا دوسرا معرکہ ضلع صوابی کے معروف قصبے ٹوپی کے مقام پر پیش آیا۔ جنگ میں پیر روخان خود شریک ہوئے اور اسی جنگ میں پختونوں کا یہ عظیم رہنما اور محسن آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ مغلوں نے جنگ جیت لی تو سینکڑوں پختونوں کو گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیا گیا۔ پیر روشان کے کئی صاحبزادوں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ آپ کے صرف ایک بیٹے جلالہ موت سے بچ گئے جو بعد میں پیر جلالہ کے نام سے مشہور ہوئے اور اپنے والد کے روشنائی تحریک کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔ اس تحریک کی طاقت اور کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی موت کے بعد تقریبا پچاس سال تک یہ تحریک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی اور پختونوں نے کبھی بھی مغلوں کی تھانیداری تسلیم نہیں کی۔

ایک ادیب کے طور پر

پیر روشان نے پشتو کے بول چال اور پشتو حروف تہجی کا بغور جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے آوازوں کے مقابلے میں یہ حروف کم ہیں تو آپ نے پشتو حروف تہجی میں تیرہ حروف کا اضافہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ پشتو کے پہلے نثری کتاب خیرالبیان کے مصنف بھی آپ ہی ہے۔ اسی کتاب نے بعد میں درسی کتاب کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔

جیسا کہ آج کی دنیا میں جب کوئی رہنما اپنی قوم کی خاطر ریاست، حکومت اور اشرافیہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو وقت کے یہ فرعون ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان کو بد نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اکثر اس رہنما کے قوم سے بااثر لوگوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ پیر روخان کے خلاف بھی مغلوں نے یہی حربہ استعمال کیا تھا اور استعمال ہونے والے بونیر کے پیر بابا تھے۔ پیر بابا ایک ولی اللہ اور بزرگ آدمی تھے مگر پتہ نہیں کہ کس طرح مغلوں کے نرغے یا بہکاوے میں آ گئے۔ پیر بابا آپ کو “پیر تاریک” اندھیروں کے پیر قرار دے چکے تھے اور ان کی کتاب خیرالبیان کی مخالفت میں ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ مگر جو سچ ہو، جو حق ہو وہ آخر کار سامنے آتی ہی ہے۔

پیر روشان پر بعد میں ہونے والی تحقیق

انگریز افغان جنگوں میں جب انگریز شکستوں سے دوچار ہوئے یا بعد میں روس نے افغانستان کے خلاف شکست کھائی تو دونوں اقوام نے پختونوں کی تاریخ کے مطالعہ کرنے کا آغاز کیا اور جب انہوں نے پیر روشان کی روشنائی تحریک پر تحقیق کی تو وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان لوگوں (پختونوں) کی ڈی این اے میں غلامی کو تسلیم کرنے کی بات شامل نہیں ہے۔ اور جب اس قوم کو ایک مخلص رہنما نصیب ہو جائے تو پھر تو یہ لوگ ہندوستان پر حکومت کرتے ہیں۔

پیر روخان ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت ایک قوم پرست رہنما، عالم دین اور صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ آپ ہر میدان میں آخری حد تک جانے میں کامیاب ہوئے مثلاً کے پانچ سو سال قبل پختونوں کو علم کی روشنی سے روشناس کرانا ہو، مغلوں سے آزادی کی خاطر اپنی قوم کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ہو، ان کو شکست سے دوچار کرنا ہو، اسلام کی تبلیغ کرنا ہو، ایک ادیب کے طور پر پشتو کی پہلی نثری کتاب لکھنا ہو یا وطن کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ امر ہوگئے۔

کیا افغان/پختون نسلاً بنی اسرائیل ہیں

کیا واقعی قیس عبدالرشید پختونوں کے جدامجد تھے؟

تین انگریز افغان جنگیں : ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *