مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
انیس سو سینتالیس سے پہلے دنیا میں پاکستان اور بھارت نام کی ریاستیں موجود نہیں تھیں۔ البتہ جس خطے میں یہ دونوں ممالک واقع ہیں انکو ہندوستان، برصغیر یا جنوبی ایشیا کہا جاتا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے یہاں پر دنیا کے قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک وادی سندھ کی تہذیب نے جنم لیا۔ ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مت کے مذاہب یہاں پیدا ہوئیں۔ پہلی صدی عیسوی سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک یہ دنیا کا سب سے مالدار ملک تھا اور دنیا کی معیشت میں اس کا حصہ 25 فیصد تھا۔ 1192 سے 1857 تک مسلمانوں (بیشتر ترک و افغان) نے ہندوستان پر حکومت کیں اور پھر اگلے 90 سال تک انگریزوں کی حکومت قائم رہی۔ انگریزوں نے چلتے چلتے ہندوستان کو دو الگ الگ ریاستوں (بھارت اور پاکستان) میں تقسیم کردیا۔ یہ تقسیم دو مذاہب ہندو مت اور اسلام کے نام پر ہوا مگر بد قسمتی سے دونوں نوزائیدہ ممالک آزادی کے دو مہینے بعد ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے صف آرا ہوئے۔
کشمیر جنگ 1947
کشمیر ہندوستان کی 560 شاہی ریاستوں میں سب سے بڑی اور جغرافیائی لحاظ سے سب سے اہم ریاست تھی۔ اس ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے جبکہ ریاست کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے آزاد رہنے کا اعلان کیا۔ کشمیری مسلمانوں نے راجہ کے فیصلے کے خلاف بغاوت کی جس نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی۔ راجہ نے بھارت سے مدد کی درخواست کی تو بھارتی حکومت نے مجبوری کے ہاتھوں مارے راجہ سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کروا دیا اور یوں کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا۔ اگلے تین دنوں میں بھارتی فوج وادی میں داخل ہوئی۔ جواب میں پاکستانی فوج نے اپنی طرف سے کشمیر پر حملہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی۔ بھارتی حکومت کو جب اپنی شکست سامنے نظر آنے لگی تو انہوں نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دو حصوں میں بٹ گیا۔
پاک بھارت جنگ 1965
انیس سو پینسٹھ میں پاکستانی فوج نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے ایک منصوبہ بنایا۔ منصوبے کے تحت پاکستانی فوج اور مجاہدین بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں داخل ہوئیں کہ کشمیر کو بزور طاقت قبضہ کیا جائے گا۔ بھارت کی انٹلیجنس ناکامی کی وجہ سے پاکستانی فوج نے کشمیر میں کافی حد تک پیش قدمی کی۔ بھارت کو حملے کا علم ہوا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب کشمیر کے اندر پاکستان کا مقابلہ مشکل ہے۔ تو انہوں نے 6 ستمبر کو لاہور پر حملہ کیا۔ سترہ روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی ہوئی تو دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے کئی علاقے قبضہ کیے تھے۔ 1966 میں روس کی ثالثی میں معاہدہ تاشقند ہوا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو اپنے علاقے واپس کر دیے۔ دونوں ممالک اس جنگ کو اپنی جیت بتاتے ہیں مگر حقیقت میں کوئی زمینی ردوبدل نہ ہونے کی وجہ سے یہ جنگ کسی نے بھی نہیں جیتی۔

پاک بھارت جنگ 1971
انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کے مسئلے پر ایک سیاسی بحران پیدا ہوا۔ جو فوجی آپریشن کے بعد خانہ جنگی میں تبدیل ہوئی۔ اس حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے نومبر 1971 میں پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ایک مہینے بعد 16 دسمبر کو پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا۔ یہ جنگ بھارت کی فیصلہ کن جیت پر ختم ہوئی جبکہ پاکستان اپنا سب سے بڑا صوبہ ہار چکا۔
سیاچن جنگ 1984
سیا چین دنیا کا سب سے بڑا وادی گلیشیئر ہے۔ جن کی لمبائی 78 کلومیٹر ہے۔ اس مسئلے کے شروع ہونے سے پہلے یہ دونوں ممالک کا ایک مشترکہ علاقہ تھا۔ جن میں سرحد مقرر ہی نہیں تھا۔ بھارت کی طرف سے بیرونی دنیا کے کوہ پیما بھارتی ویزے پر اس علاقے کا سفر کرتے جبکہ پاکستان کی طرف سے پاکستانی ویزے پر۔ پتہ نہیں کہ بھارتی فوج کے ذہن میں یہ منفی بات کس نے ڈالی کہ برف کے اس چٹان پر قبضہ کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے 1984 میں بھارتی فوج کو یہاں داخل کرایا گیا۔ پاکستان کو اطلاع ملی تو پاک فوج بھی علاقے میں پہنچ گئی اور یوں سیاچین دنیا کا سب سے بلند ترین اور سرد ترین میدان جنگ بن گیا۔ 1989 میں سارک کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کافی آگے جا چکے تھے مگر پتہ نہیں کہ وزیراعظم گاندھی کا بھارت واپس جانے کے بعد ان کے کان میں کسی نے کیا کہہ دیا کہ یہ مسئلہ حل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہاں 2003 کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے ایک گولی نہیں چلی ہے مگر پھر بھی سینکڑوں فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس مسئلے کے حل ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دونوں ہمسایوں کی حکومتوں کی آنا اور ضد ہیں۔

کارگل جنگ 1999
مئی 1998 میں پہلے بھارت اور پھر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے۔ اب وقت کا تقاضا یہ تھا کہ دونوں ممالک جوہری طاقت ہونے کی وجہ سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے جنگوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لے۔ بھارت کی طرف سے پہل کرتے ہوئے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان لاہور میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے اور دنیا نے سکھ کا سانس لیا مگر پاکستانی فوج کو امن کے اس سفر کا آغاز اچھا نہ لگا اور بہت جلد جنرل پرویز مشرف کے دماغ میں ایک نیا منصوبہ بننے لگا۔ اس منصوبے کے مطابق پاکستانی فوج نے بھارتی زیر اہتمام لداخ کے ضلع کارگل پر حملہ کیا اور بلند ترین چوٹیوں پر قبضہ کر کے بھارت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اب بھارت کے پاس دوسرا آپشن موجود نہیں تھا یوں انہوں نے ایئر فورس کو حکم دے کر پہاڑی چوٹیوں پر موجود پاکستانی سپاہیوں پر بمباری شروع کی۔ جنرل پرویز مشرف کے سامنے دو راستے تھے کہ یا تو پاکستان ائیر فورس کو حکم دے کر بھارتی فضائیہ کا مقابلہ کرے مگر اس سے ایک خطرناک اور تباہ کن جنگ شروع ہونے کا اندیشہ تھا۔ یا اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیں۔ آرمی چیف نے دوسرا راستہ اختیار کیا مگر جنگ بندی معاہدے کے بغیر واپسی کے احمقانہ فیصلے کی وجہ سے پاکستانی فوج کو بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے کامیابی سے اپنے سرحدات کا دفاع کرتے ہوئے اس معرکے کو “آپریشن وجے” یعنی جیت کی آپریشن کا نام دے دیا۔
کیا مستقبل میں دونوں ممالک جنگ میں جا سکتے ہیں؟
مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان کسی بڑی جنگ کا کوئی خطرہ موجود نہیں کیونکہ دونوں حکومتیں اور افواج یہ بات جانتے اور مانتے ہیں کہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا نتیجہ تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ البتہ اتنی بات ہے کہ 2019 کے بھارتی سرجیکل سٹرائیک اور پاکستان کی طرف سے ابھی نندن کی گرفتاری جیسے واقعات یا لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ کے واقعات پیش ہوتے رہیں گے۔
عرب اسرائیل جنگوں کی تاریخ، کس نے کیا کھویا کیا پایا
تین انگریز افغان جنگیں : ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا
دنیا میں جنگوں کی تاریخ، جنگوں کے اسباب و نتائج، سب سے تباہ کن جنگیں