پاک ایران تعلقات کا سرسری جائزہ

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

پاکستان اور ایران اسلامی دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہیں جنہیں ہم درمیانے درجے کی طاقت یعنی مڈل پاور کہہ سکتے ہیں، باقی تین ممالک سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا ہیں۔ مڈل پاور وہ ملک ہوتا ہے جو سپر پاور کی طرح پوری دنیا میں اثر رسوخ تو نہیں رکھتا مگر ایک مخصوص علاقے میں ان کا ایک حاوی کردار ہوتا ہے، اسے بین الاقوامی تعلقات میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور ایران ہمسایہ ممالک ہیں، دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد 832 کلومیٹر طویل ہے اور دونوں کئی ایک بین الاقوامی مسائل پر ایک جیسا نظر رکھتے ہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات کا تاریخی جائزہ

ایران کا پرانا نام فارس تھا۔ سلطنت فارس صدیوں تک ایک عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے ایک بڑے حصے (جس میں موجودہ پاکستان بھی شامل تھا) پر محیط رہ چکا ہے، دونوں ممالک کا سرکاری مذہب اسلام ہے یعنی کہ دونوں تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور ایرانی بادشاہ پہلے غیرملکی رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر ایران ہمیشہ سے پاکستان کا حمایت کرتا آرہا ہے۔ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک امریکی کیمپ کا حصہ تھے۔ 1965 اور 71 کے پاک بھارت جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کو اخلاقی اور سفارتی لحاظ سے تعاون فراہم کیا تھا۔

ایران پاکستان اور ترکی نے 1964 میں آر سی ڈی کے نام سے علاقائی تعاون کا ایک تنظیم قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کی 1985 میں تجدید نو کی گئی تو اس کا نام ای سی او رکھا گیا۔ اب اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد دس تک پہنچ چکی ہے، جس میں تینوں بانی ارکان کے ساتھ ساتھ افغانستان اور چھ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف ایرانی صدر ابراہیم حسینی کے ساتھ

انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ کرکے جمہوریت متعارف کرایا گیا۔ پاکستان نے سب سے پہلے انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ اسی سال روس افغان جنگ شروع ہوئی، اس دس سالہ جنگ میں ایران اور پاکستان دونوں امریکہ کے خلاف برسرپیکار رہے۔ اس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران پاکستان طالبان کو امداد فراہم کر رہا تھا اور ایران شیعہ مجاہدین کی تنظیموں کو۔ 1996 میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اگر چہ دونوں ممالک میں کچھ دوری پیدا ہوئیں مگر دوطرفہ تعلقات پھر بھی دوستانہ رہے، جن کا ایک ثبوت پاکستان کے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد معاشی پابندیوں کے دور میں ایران کی مدد تھی۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن

صدر زرداری کے دور کے آخری سال 2013 میں دونوں ممالک کے درمیان گیس کا یہ معاہدہ ہوا لیکن ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ معاہدہ آج تک نافذالعمل نہ ہو سکا جن کا اقتصادی لحاظ سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ایرانی وزیر خارجہ امیر حسین عبداللہیان

موجودہ بین الاقوامی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ایران اور پاکستان جس خطے میں واقع ہیں یہاں دو مخالف گروپ وجود میں آچکے ہیں۔ پہلے گروپ میں عرب ممالک، بھارت، اسرائیل اور یورپ امریکہ کے اتحادی ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں روس اور چین کے ساتھ ایران، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔

پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان قریبی تعلقات اور پاکستان میں شیعہ سنی مسائل کی وجہ سے کبھی کبھار دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں مگر مجموعی طور پر ہم پھر بھی اسے خوشگوار تعلقات کا نام ہی دے سکتے ہیں۔

پاک افغان تعلقات ، اچھے دن برے دن

پاکستان کھیلوں کی دنیا میں؛ ماضی اور حال، کامیابیاں اور ناکامیاں

روح، دل اور نفس کی حقیقت

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *