پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ : محبت اور نفرت کا مشترکہ سفر؛ ماضی، حال، مستقبل

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ایک مسلم ریاست ہے جو دراصل 1947 میں تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں وجود میں آ چکا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، آبادی میں نوجوانوں کا بڑا حصہ ہونے کی وجہ سے اسے نوجوانوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اور ایک بہترین پیشہ ور فوج کی حامل ریاست ہے مگر اس کی کمزور معیشت عالمی اسٹیج پر اس کے قدر کو کم کر دیتا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی اہل قیادت کو ملک کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی اور اگر ایسا ہوا بھی تو بہت جلد ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اس ملک کی سب سے بڑی قوت فوجی اسٹبلشمنٹ ہے۔

جب کہ اس کے مقابلے میں امریکہ دنیا کا سُپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی 33 کروڑ آبادی، مستحکم جمہوریت، اہل قیادت، سو فیصد شرح خواندگی، بیدار سول سوسائٹی، امیر ترین ملٹی نیشنل کمپنیاں، دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں، مضبوط ترین فوج وغیرہ ہے۔

پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ

پہلا دور : دوستی کا زمانہ

پاکستان جس زمانے میں قائم ہوا اس زمانے میں پوری دنیا کے ممالک امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ کے نتیجے میں دو مخالف بلاک میں تقسیم ہو چکے تھے۔ ہندوستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان نے ہمسایہ روس کو اپنا دشمن بنا دیا۔ لیاقت علی خان حکومت کی طرف سے امریکہ کا اتحادی بننے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر بیرونی فوجی اور معاشی امداد کی ضرورت تھی اور امریکہ نے اس ضمن میں مدد کرنے کا یقین دلایا تھا۔ 1954 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا جس کے مطابق اگر کوئی ملک پاکستان پر حملہ کرے گا تو امریکہ پاکستان کی دفاع کے لیے دستیاب ہوگا۔ اس دوران پاکستان امریکی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں بھی شامل ہوا۔

کیا امریکہ نے پاکستان کی مدد کی

1950 اور 1960 کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی معاشی امداد فراہم کی اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مدد سے پاکستان کا خلائی پروگرام لانچ کیا گیا اور پاکستان ان چند گنے چنے ممالک میں شامل ہوا جس نے اپنا راکٹ خلا میں بھیجا۔ پاکستان کی سول نیوکلئیر پروگرام بھی امریکہ کی مرہون منت ہے جب کراچی میں ملک کا پہلا ایٹمی بجلی گھر قائم کیا گیا۔ امریکی حکومت کی سکالرشپ پر پاکستانیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے وہاں کی بہترین یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا گیا۔

صدر ایوب خان امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے ساتھ

پاکستان امریکی غلامی میں چلا گیا

امریکہ کی مدد اپنی جگہ لیکن کئی مرتبہ پاکستانی حکومتوں نے ایسے قدم اٹھائیں جو قومی غیرت کے منافی تھے۔ 1952 میں پاکستان میں قحط کا صورتحال پیدا ہوا تو امریکہ نے ہزاروں من گندم پاکستان بھیجے. بندرگاہ سے گندم کو اونٹوں پر لاد دیا گیا تو ان کی گردنوں میں تختیاں لٹکائی گئی جن پر “تھینک یو امریکا” لکھا گیا تھا۔ مذکورہ چاپلوسی سے لے کر بڈھ بیر ایئر بیس پشاور کو امریکہ کے حوالے کرنے تک اور بعد کے زمانے میں افغانستان میں روس کے خلاف براہ راست جنگ ہو یا امریکہ کی قیادت میں طالبان کے خلاف جنگ، ڈرون حملے یا ایبٹ آباد آپریشن، سب نے یہ تاثر قائم کیا کہ پاکستان کی خودمختاری امریکہ کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔

پاک بھارت جنگیں اور امریکہ

اگرچہ 1954 کے دفاعی معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ پاکستان پر حملہ ہونے کی صورت میں امریکہ پاک فوج کی مدد کے لیے آئے گا مگر دونوں پاک بھارت جنگوں میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس میں گناہ امریکہ کا نہیں بلکہ پاکستان کا تھا، کیسے؟ تو ایسے کہ امریکہ کے مطابق 1965 میں پاکستان نے پہل کرکے بھارتی کشمیر پر حملہ کیا تھا اور جب بھارت نے لاہور پر حملہ کیا تو ان کو ہماری یاد آئی۔ ایک اتحادی کے طور پر پاکستان کا فرض تھا کہ بھارت پر حملہ کرنے سے پہلے ہمیں اطلاع دی جاتی۔ 1971 میں اگرچہ پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے حملہ کیا تھا مگر امریکہ نے جنرل یحییٰ خان حکومت کو شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار حوالہ نہ کرنے اور پھر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے سے جنگ کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی حکومت کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکہ پاکستان کا دفاع کرے گا۔

ستر کی دہائی: کشیدہ تعلقات کا دور

انیس سو اکتر کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران بنے تو اس نے آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ لگا کر امریکہ کے ساتھ تمام معاہدے توڑ ڈالیں۔ بھٹو نے روس کا دورہ کرکے ان سے دوستی کا ہاتھ ملایا، ملک میں نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذ کی جو دراصل کمیونیزم کی طرف ایک قدم تھا۔ روس کی مدد سے کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز کی بنیاد رکھی گئی۔ 1974 میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کرکے عالم اسلام کے درمیان اتحاد کا منصوبہ پیش کیا۔ دو سال بعد پاکستان نے ایٹم بم بنانے کے سفر کا آغاز کیا۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کے لئے باعث تشویش تھیں۔ یوں تعلقات انتہائی پستی کی طرف چلے گئے۔

اسی کی دہائی: دوستانہ تعلقات کا دور

انیس سو اناسی میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا امریکہ نے روس کو افغانستان میں پوری طرح گھیرنے کا منصوبہ بنایا۔ منصوبے کے مطابق پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا ایک مرتبہ پھر پاکستان کے لیے خزانے کی منہ کھول دی گئی، اربوں ڈالر کی معاشی و فوجی امداد فراہم کی گئی۔ پہلی مرتبہ پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیارے دے دیے گئے۔ اور یوں پاکستان نے اس امداد کے عوض امریکہ کی خاطر روس کے خلاف جنگ لڑی۔ جس سے مختصر مدتی طور پر فائدہ ہوا مگر طویل مدت کے لیے نقصان ہی نقصان۔

وزیراعظم نواز شریف امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ

نوے کی دہائی: تعلقات پھر پستی کی طرف چلے گئے

روس کی جنگ ختم ہوئی پاکستان میں جمہوریت کی صبح طلوع ہوئی امریکہ کو اب ہماری مزید ضرورت نہیں تھی یوں منہ موڑ لیا گیا۔ یہاں تک کہ خواتین کے حقوق اور چائلڈ لیبر کو بہانہ بنا کر معاشی امداد کو روک دیا گیا۔ 1998 میں امریکی دباؤ کے باوجود نواز شریف حکومت نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس دور میں امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کی اور بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ صدر کلنٹن نے بھارت اور پاکستان کا دورہ کیا تو بھارت میں چار دن گزاریں جبکہ پاکستان میں چار گھنٹے۔

نئی صدی میں تعلقات کی اونچ نیچ

نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے نے طالبان اور القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو پاکستان سے مدد کی درخواست کی۔ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر “یس سر” میں جواب دیا اور اگلے 20 سالوں تک پاکستان ایک مرتبہ پھر ایک پرآئے جنگ میں کود گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اسی ہزار لوگ مر چکے۔ امریکہ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں، ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ حملے کے بعد پاکستانی قوم کے اندر امریکی مخالف جذبات انتہا تک پہنچ گئے۔ دوسری طرف طالبان کی طرف سے عوامی مقامات پر بم دھماکوں کی صورت میں ملک کا سکون برباد ہوا پاکستان پوری دنیا میں قربانی دینے کے باوجود بد نام ہوا۔

قوم کو ان بے پناہ نقصان کے باوجود امریکا ہم سے راضی نہ ہو سکا اور 2018 کے پہلے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ پچھلے 17 سالوں میں ہم نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر فراہم کیے مگر پاکستان نے ہمارے ساتھ ڈبل گیم کرکے اچھے اور برے طالبان کی پالیسی اپنائی اور افغان طالبان کی قیادت کو اپنے ہاں پناہ فراہم کی۔

2020 میں امریکا نے افغانستان سے نکلنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ کیا تو اسے پھر پاکستان کی یاد آئی پاکستان نے مری میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا۔ اسی مذاکرات کے نتیجے میں قطر میں امریکہ طالبان معاہدہ ہوا اور امریکہ افغانستان سے نکل گیا۔

وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ

مارچ 2022 میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے جلسے میں ایک خط لہرا کر الزام لگایا کہ امریکا عدم اعتماد تحریک کے ذریعے مجھے اقتدار سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اس نے یہ الزام بار بار دہرایا۔ پاکستانی قوم کی اکثریت نے اس کی بات پر یقین بھی کیا۔ امریکہ نے بار بار اس الزام کو رد کر دیا۔ اس بات میں ذرا برابر شریک نہیں کہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہے۔

کیا پاکستان بھی کبھی امریکہ کے خلاف کھڑا ہوا ہے

ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی ہر بات مانی ہے بلکہ کئی اہم معاملات میں قومی مفادات کی خاطر امریکہ کو لال جھنڈی بھی دکھائی ہے۔ مثلاً امریکہ کبھی بھی پاکستان اور چین کی دوستی نہیں چاہتا تھا مگر پاکستان نے اس ضمن میں امریکہ کا نہیں مانا۔ ایٹم بم بنانے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے جس نے امریکہ کے خلاف کئی قدم اٹھائے تھے مگر بعد کے حکومتوں نے بھی امریکی دباؤ کے باوجود یہی سفر جاری رکھا اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نواز شریف نے امریکی پابندیوں کی دھمکی کو پس پشت ڈال کر ایٹمی دھماکے کئے۔ اسی طرح امریکہ کی چاہت کے باوجود پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آج تک راضی نہیں ہو سکا اور ہمیشہ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

ایک نئی سرد جنگ

دنیا ایک مرتبہ پھر سرد جنگ کے دہانے پر ہے مگر اب کی بار امریکہ کا مخالف روس کے بجائے چین ہے۔ ہمارے خطے میں بھارت امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے جب کہ پاکستان، روس، ایران، طالبان کا افغانستان اور چین دوسری طرف ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے مقابلے میں چین اور روس کے مضبوط آپشن موجود ہیں لیکن پھر بھی امریکہ کو کسی بھی حالت میں دشمن بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

پاکستان کے آگے مناسب راستہ کیا ہے

جذباتی لوگ امریکہ کے خلاف نعرے لگا کر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنا چاہیے اور اس کے مقابلے میں عرب ممالک، روس اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے چاہیے یہ بالکل درست بات نہیں۔ پاکستان کو امریکہ، روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں اعتدال رکھنا چاہیے۔ ایک یا دوسرے بلاک کا حصہ بننے سے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ تعلقات برابری کی سطح پر ہونی چاہیے۔ امداد کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کی بات کرنی چاہیے۔

امریکہ پاکستان کے لئے کیوں اہم ہے

پاکستان ایک درمیانے درجے کی طاقت ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک بھی امریکہ کے ساتھ دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی بیس فیصد برآمدات امریکا جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ چار سے چھ لاکھ پاکستانی امریکہ میں مقیم ہیں جن میں سے بیشتر امریکی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور اربوں ڈالر کی ترسیلات زر اپنے ملک بھیجتے ہیں۔ اگر امریکہ چاہے تو آئی ایم ایف یا کوئی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ پاکستان کو ایک روپیہ امداد یا قرض بھی نہیں دے گا۔

کیا امریکہ پاکستان کے خلاف انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے

امریکہ کبھی بھی پاکستان کو کمزور نہیں کرے گا اور اب بھی مختلف طریقوں سے پاکستان کی مدد کر رہا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کا دیوالیہ ہونے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اپنی زیادہ آبادی، اہم جغرافیائی محل وقوع اور طاقتور فوج کی وجہ سے امریکہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

مندرجہ بالا پوری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مفادات پر مبنی ہے اور اسی مفادات کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ بھی نہیں سکتے، کبھی ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے رقیب بن جاتے ہیں، دونوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔

کیپیٹلزم، کمیونزم اور اسلامی معاشی نظام

آزادی یا غلامی، کیا میں خود غلام تو نہیں؟

1 thought on “پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ : محبت اور نفرت کا مشترکہ سفر؛ ماضی، حال، مستقبل”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *