مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
پاکستان تحریک طالبان کی طرف سے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر حملے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو ہمارے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں یعنی کہ طالبان حکومت (جسے پوری دنیا پاکستان کے لوگ کہتے ہیں) اور پاکستان بھی ایک صفحہ پر نہیں ہے۔ مگر اس سے خطرناک منظر ہم پچھلے سال ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈکپ میں پاک افغان میچ کے دوران دیکھ چکے ہیں جب میچ کے دوران کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہائی وولٹیج میچ سے بھی بڑھ چکی تھی۔ تو کیا افغانستان پاکستان کے لیے دوسرا بھارت بن چکا ہے اور اگر ایسا ہے تو حالات اس نہج تک کیسے پہنچے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان جس علاقے میں واقع ہے یہ علاقہ اور خصوصاً اس ملک کا مغربی حصہ ماضی میں زیادہ تر افغانستان کا حصہ رہ چکا ہے ۔ دونوں ہمسایہ، مسلم اور سنی اکثریت والے ممالک ہیں۔ افغانستان میں پختون سب سے بڑی اور پاکستان میں دوسری نمبر پر بڑی قوم ہے۔ مشترکہ تاریخ اور ثقافت کے پیش نظر دونوں ممالک دو قالب یک جان ہونے چاہیے تھے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے آزادی کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی ممبر شپ کی مخالفت کی تھی مگر آخر کیوں ؟
ڈیورنڈ لائن
پاک افغان بارڈر کو ڈیورنڈلائن کہا جاتا ہے۔ اس سرحد کی لمبائی 2600 کلومیٹر ہے جو پاکستان کی کسی بھی ملک کے ساتھ طویل ترین سرحد ہے۔ اس سرحد کو برٹش انڈیا اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدے کی رو سے 1893 میں مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد افغان حکومت اور عوام کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ بھی کیا گیا ۔
ڈیورنڈ لائن کی حقیقت
اخلاقی طور پر افغانستان کا دعویٰ بالکل ٹھیک تھا کیونکہ یہ معاہدہ انگریز سرکار کے ساتھ ہوا تھا اب چونکہ پاکستان کے نام سے ایک نئی مملکت وجود میں آ چکی تھی تو اس معاہدے کی تجدید کی ضرورت تھی۔ رہی بات افغانوں کا پختونخوا پر دعویداری کا۔ تو تاریخی لحاظ سے اور ایک قوم ہونے کے ناطے یہ نقطہ نظر بھی ٹھیک ہے۔ مگر افغانستان کے ساتھ زیادتی پاکستان نے نہیں انگریزوں نے کی تھی کیونکہ 22جون 1947 کو باچا خان کی قیادت میں بنوں میں ہونے والے پختون مشران کے جرگے میں انگریزوں کے سامنے پختونخوا کو افغانستان کا حصہ بنانے کی جو تجویز پیش کی گئی تھی انگریزوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
کشیدہ تعلقات کا دور
اس سرحدی مسئلے کی وجہ سے سے 1950 اور 60 کی دہائیوں میں دو مرتبہ افغان فوج کی طرف سے پاکستان میں دراندازی کی گئی اور دو مرتبہ حالات سفارتی تعلقات منقطع ہونے تک پہنچے۔ لیکن دونوں پاک بھارت جنگوں میں افغانستان کی غیر جانبداری دراصل پاکستان کے ساتھ خیر خواہی تھی۔
دوستانہ تعلقات کا دور
انیس سو اناسی میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور اگلی ایک دہائی اس جنگ کی نذر ہوچکی۔ پاکستان نے افغانستان کے اندر روس کے خلاف مورچہ سنبھال لیا اور لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر پناہ بھی دے دی جس کی وجہ سے افغان عوام کے دلوں میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ 1988 میں جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی جو 1996 میں طالبان حکومت کے قیام تک جاری رہی۔ طالبان پاکستان کی مدد سے کابل کی تخت تک پہنچے تھے اور انہوں نے اقتدار حاصل کرتے ہی سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں افغان قوم پرستوں کی جانب سے پاکستان کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ پوری دنیا میں صرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

امریکی جنگ
امریکا میں القاعدہ کی طرف سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون پر حملوں کے بعد امریکہ نے ملا عمر حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا جو انہوں نے رد کر دیا۔ یوں نتیجے میں امریکہ نے القاعدہ کی بیخ کنی اور طالبان حکومت کو سبق سکھانے کے لیے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کر دیا اور پھر اگلے بیس سال تک یہ جنگ جاری رہی۔ اس جنگ کے دوران انتخابات کے ذریعے پہلے حامد کرزئی اور بعد میں اشرف غنی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے۔
پاکستان کا جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے افغان عوام کے ذہنوں میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں بار بار مداخلت کی بات پختہ ہو چکی تھی۔ دوسری طرف اس زمانے میں ہندوستان افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنا ایک سافٹ امیج بنانے میں کامیاب ہو چکا۔
سابق افغان صدور کا پاکستان کے بارے میں رائے
سابق صدر حامد کرزئی سے پاکستان کے کردار کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا پاکستانی عوام نے ہمیں سالوں تک مہمان بنائے رکھا، ہماری خدمت کی، ہمیں محبت دی مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔
اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے ساتھ دوستی کا نعرہ بلند کیا۔ سب سے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے بھی پاکستان کا انتخاب کیا مگر بہت جلد مایوس ہوئے۔ 2016 میں سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ میری طرف سے پاکستان کے ساتھ دوستی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی نواز شریف بھی اپنی طرف سے مخلص تھے مگر راحیل شریف دونوں ممالک کے درمیان دوستی نہیں چاہتے۔
موجودہ حال
افغانستان اور پاکستان کے درمیان خراب تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ ہمسایے تبدیل نہیں کیا جا سکتے مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان ڈیورنڈ لائن کے آر پار پختون قوم کو ہورہا ہے۔ پاکستانی پشتونوں کی طرف سے افغانستان کے لوگوں کو نمک حرام جبکہ افغانستان کے پختونوں کی طرف سے ان پختون بھائیوں کو جو پاکستان کو اپنا ملک قرار دے رہے ہیں گل خان کہا جاتا ہے۔ سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ اس سارے قصے میں عام پختون (خواہ وہ پاکستانی ہو یا افغان) کا کوئی قصور نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سمجھدار لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پختون قوم کا سب سے بڑا دشمن پنجاب، امریکہ اور روس نہیں ہے۔ان لوگوں کی سب سے بڑی دشمن انکی اپنی جہالت ہے یعنی کہ یہ خود اپنے آپ کے دشمن ہیں۔
حل کیا ہے
ڈیورنڈ لائن سے زیادہ خطرناک افغان قوم کے درمیان نفرت کا وہ ڈیورنڈ لائن ہے جو ان قوم کو تقسیم در تقسیم کر چکی ہے۔ بھلا درمیان میں سرحد موجود ہو مگر نفرت کے اس ڈیورنڈ لائن کو جلد سے جلد گرانا چاہیے اور اس کو گرانے کے لیے علم اور سمجھ کے اوزار چاہیے ۔
پاکستانی معیشت کس حال میں ہے، اعداد و شمار کے آئینے میں
اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟
لیڈر کون ہوتا ہے؟ لیڈر اور سیاستدان یا لیڈر اور منیجر میں کیا فرق ہوتا ہے۔
Zbrdst professor sb