پاکستان کی آئینی تاریخ

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

دنیا کے تمام ممالک کے نظام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان ممالک کے آئین ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آئین قوانین کا وہ مجموعہ ہوتا ہے جن کے مطابق کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے۔ کسی ملک کے قیام کے بعد ان کو درپیش چیلنجز میں ایک متفقہ آئین بنانا ہوتا ہے جن کے ذریعے ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک متوازن، خوشگوار اور پائیدار تعلق قائم ہوتا ہے۔ پاکستان کو بھی آزادی کے بعد آئین سازی کا مسئلہ درپیش رہا یہاں تک کہ آزادی کے 9 سال بعد ملک کو پہلا آئین نصیب ہوا مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 9 سال تک یہ ملک کس آئین کے مطابق چل رہا تھا۔

انڈیا ایکٹ 1935

انیس سو پینتیس میں برطانوی پارلیمان نے اپنے زیر قبضہ ہندوستان کے لئے انڈیا ایکٹ 1935 کے نام سے نیا قانون منظور کیا جو در اصل آئینی و قانونی اصلاحات کا ایک پیکج تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس برطانوی قانون کو کچھ ترامیم کے ساتھ ملک میں آئین کے طور پر نافذ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ کی جانب سے آج تک یہ تنقید ہوتا رہتا ہے کہ جس ملک کو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا اس ملک میں انگریز کا قانون نافذ کیا گیا۔

آئین سازی میں التوا کے وجوہات

بھارت آزادی کے بعد دو سال میں آئین بنانے میں کامیاب ہوا تو آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کو اپنے آئین بنانے میں نو سال لگے۔ انتہائی مختصر اور آسان زبان میں بات کریں تو یہ ریاست اور عوام کے درمیان کچھ تضادات تھیں جو آئین سازی کی راہ میں رکاوٹ بن چکے، مثال کے طور پر عوام اسلامی نظام چاہتے تھے جبکہ اقتدار پر قابض مسلم لیگی سیاستدان، بیوروکریٹ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو سیکولر ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔

دوسرا ملک کے سب سے بڑے اکثریتی لسانی گروہ یعنی بنگالیوں کی طرف سے بنگالی زبان کو قومی زبان مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جبکہ حکومت میں شامل مغربی پاکستان کا بااثر گروہ صرف اردو کو قومی زبان قرار دینے پر مصر تھے۔

تیسرا بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ عوام کی طرف سے صوبائی خودمختاری کا نعرہ بلند ہو رہا تھا مگر پنجابی قوم کے اختیار مند مضبوط مرکز کے حامی تھے۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ایک دور شروع ہوا ۔ افسر شاہی اور فوج کے گٹھ جوڑ سے محلاتی سازشوں کے ذریعے بار بار حکومتوں کو تبدیل کرنا بھی ایک اہم وجہ تھی ۔

محمد علی جناح اور لیاقت علی خان

1956 کا آئین

ملک کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو ملک میں نافذ کر دیا گیا جب ملک کا وزیراعظم چوہدری محمد علی اور گورنر جنرل سکندر مرزا تھے۔ گورنر جنرل کے عہدہ کو صدر کا نام دیا گیا یوں سکندر مرزا ملک کے پہلے صدر بنے۔ اس آئین کے اہم نکات یہ تھے۔

ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور سربراہ ریاست کے لئے مسلمان ہونے کا شرط لاگو کیا گیا ۔

وفاقی نظام رائج کر کے پاکستان کو دو صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان کا وفاق قرار دے دیا گیا۔

پاکستان میں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام لاگو کیا گیا مگر اس کے باوجود بھی صدر کو کئی ایک اضافی اختیارات دے کر مضبوط بنایا گیا۔

اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔

7 اکتوبر 1958 کو صدر سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے اس آئین کو ختم کر دیا یوں وہ آئین جن کے بنانے میں نو سال لگ چکے تھے صرف ڈھائی سال چل سکا۔ فوجی حکومت نے ملک کے تمام مسائل کی ذمہ داری سیاستدانوں اور اس آئین پر ڈالی اور ملک کو ایک نیا آئین دینے کا اعلان کیا۔

1962 کا آئین

ملک کے اس دوسرے آئین کو انگریزی میں “ون مین کانسٹیٹیوشن” کا نام دیا گیا کیونکہ یہ صرف ایک شخص جنرل ایوب خان کا بنایا ہوا آئین تھا اور اس کے مطابق تمام اختیارات کا مالک بھی وہی تھا یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کا یہ آئین اس کے استعفیٰ دینے کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ اس آئین کی چند نمایاں خصوصیات یہ تھیں۔

جنرل محمد ایوب خان

ملک کا نام جمہوریہ پاکستان رکھا گیا بعد میں سخت عوامی ردعمل کے بعد ان کے ساتھ لفظ “اسلامی” شامل کر دیا گیا۔

اس آئین میں سرے سے بنیادی انسانی حقوق شامل ہی نہیں تھے جس کو بعد میں ایک ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا۔

یہ پاکستان کا واحد صدارتی آئین تھا یعنی کہ اس آئین کے مطابق وزیراعظم کا عہدہ ختم کر کے صدر کو تمام اختیارات سونپ دیئے گئے تھے ۔

1973 کا آئین

یہ پاکستان کا موجودہ آئین ہے جسے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے بنایا گیا اور 14 اگست 1973 کو ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین میں 280 دفعات اور سات گوشوارے شامل ہیں جسکی رو سے پاکستان کا موجودہ نظام اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ

ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں کے لیے مسلمان ہونے کا شرط رکھا گیا ہے۔ اس آئین میں پہلی مرتبہ لفظ مسلمان کی تعریف کی گئی ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جو خدا کو ایک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، یہی وہ نقطہ ہے جن کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ یہ آئین پاکستان کے پچھلے دونوں آئینوں کے مقابلے میں زیادہ اسلامی دفعات کا حامل ہے۔

پاکستان میں وفاقی نظام رائج کر دیا گیا ہے اور ملک کو چار صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل وفاق قرار دے دیا گیا ۔ ملک میں پارلیمانی نظام رائج کر کے وزیراعظم کو انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر بااختیار بنا دیا گیا جبکہ صدر کو سربراہ ریاست کے طور پر صرف علامتی اختیارات دے دیے گئے۔ اردو کو پاکستان کا قومی زبان قرار دے دیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو

اس آئین کے آرٹیکل چھ کے ذریعے اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ اگر کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے اس آئین کو ختم کرنے یا معطل کرنے کے لیے قدم اٹھایا گیا یا کوشش کی گئی تو اس شخص یا گروہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا، جن کی سزا عمر قید یا موت بھی ہوسکتی ہے یعنی کہ سپریم کورٹ کو اس آئین کا محافظ بنایا گیا ہے۔

نمایاں آئینی ترامیم

آئین پاکستان میں اب تک ٹوٹل 26 ترامیم کی گئی ہیں جن میں تین ترامیم ایسے ہیں جو پارلیمان سے منظور نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ چیدہ چیدہ ترامیم کا ذکر کیا جاتا ہیں۔

دوسری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔

آٹھویں، تیرہویں، سترہویں اور اٹھارویں ترمیم آئین کے شق اٹھاون ٹو بی سے متعلق ہے۔ آئین کے ابتدائی اصلی دستاویز میں اس شق کے مطابق اگر وزیراعظم صدر پاکستان کو قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے دیں تو صدر 48 گھنٹے کے اندر اندر اسمبلی تحلیل کرے گا۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے ضیاءالحق اور سترھویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے صدر کو خود سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا تھا جبکہ تیرہویں اور اٹھارویں ترمیم میں نواز شریف اور گیلانی کی جمہوری حکومتوں نے آئین کو اپنی اصلی شکل میں بحال کرایا۔

نویں اور پندرھویں ترمیم کے ذریعے پہلے 1985 میں جنرل ضیاء الحق اور پھر 1997 میں نواز شریف کی طرف سے شریعت لاء کو متعارف کرایا گیا مگر یہ دونوں ترامیم پارلیمان سے منظور نہ ہو سکے۔

اٹھارویں ترمیم

اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صدر سے ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ زرداری کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ آئین کو اپنی اصل شکل میں بحالی کے لئے اپنے اختیارات پارلیمان کو واپس کرنے پر راضی ہوئے۔ اس ترمیم کی سب سے بڑی خوبی صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنا تھا جس کے نتیجے میں کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو تعلیم صحت، امن وامان اور بلدیات کے ساتھ ساتھ تقریبا ڈیڑھ درجن سے زائد محکمے شفٹ ہو چکے۔ صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دے کر صوبے کے اکثریتی عوام کا مطالبہ تسلیم کیا گیا۔ کسی بھی شخص کی تیسری مرتبہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بننے پر پابندی بھی ہٹا دی گئی۔

اکیسویں اور تئیسویں ترامیم کے ذریعے 2015 اور 2017 میں دو، دو سال کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

پچیسویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنایا گیا جبکہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کے لیے قومی اسمبلی میں بارہ اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں چوبیس نشستیں مقرر کردی گئی۔

کیا پاکستان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار یہ آئین ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں کئی کوتاہیاں ہوسکتی ہے مگر مجموعی طور پر یہ ایک متوازن اور بہتر آئین ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اصل میں بات آئین کی نہیں ہوتی بلکہ آئین چلانے والوں کی ہوتی ہے۔ چینی آئین کے مطابق چائینیز کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کسی بھی دوسری پارٹی کے قیام پر پابندی عائد کر دی گئی ہے یعنی کہ وہاں سی سی پی کی آمریت قائم کر دی گئی ہے مگر چین پھر بھی ترقی کر رہا ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی نظام حقیقت میں برطانوی پارلیمانی نظام کی نقول ہیں تو اگر آئین یا نظام میں مسئلہ ہوتا تو برطانیہ ترقی یافتہ اور ہندوستان تیزی سے ترقی کرنے والا ملک نہیں ہوتا ۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی مشہور کتاب شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ صدر سکندر مرزا نے ملکی آئین کو ہاتھ میں اٹھائے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے یہ کچرا پڑھا ہے ۔

اسی طرح ایک مرتبہ صدر ضیا الحق نے کہا کہ آئین کیا ہوتا ہے ، کچھ صفحات پر مشتمل دستاویز ، اگر میں اسے آج پھاڑ دوں تو کون مجھے روک سکتا ہے ۔

ان دونوں سربراہانِ مملکت کے آئین کے بارے میں خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کیوں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کر رہا ہے ۔

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

تاريخ پاکستان : پہلا جمہوری دور (1947-58)

دنیا کی تاریخ : آئیے دنیا کی تاریخ کے بارے میں چند حقائق جانے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *