مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
آج کا دور جنگوں کا دور نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری کو شکست دے کر اپنا سینہ چوڑا کریں۔ جدید دنیا میں اقوام عالم کے درمیان معاشی ترقی، سیاسی استحکام، علمی مہارت اور سماجی ہمدردی کے میدان میں مقابلے ہوتے ہیں۔ امن، خوشی، برداشت اور ہمدردی وغیرہ مہذب اقوام کی حیثیت ماپنے کے لیے پیمانے بن چکے ہیں۔ جن ممالک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ یہی کھیلوں کے میدان اقوام عالم کے درمیان مقابلے کے لئے بہترین مواقع ہوتے ہیں جہاں ایک ملک حریف ملک کے ٹیم کو شکست دے کر فخریہ انداز میں اپنا قومی جھنڈا ہوا میں بلند کر دیتا ہے۔
پاکستان بھی اپنی 75 سالہ زندگی میں کئی کھیلوں میں کامیابیاں سمیٹ چکا ہے۔ اگر ہم انفرادی طور پر چند کھیلوں کا ذکر کریں تو ہاکی، کرکٹ، سکواش، کبڈی، سنوکر اور ریسلنگ وہی کھیل ہیں جن میں پاکستان زیادہ کامیاب رہا ہے ۔ آج کے بلاگ میں پاکستان کی ان کھیلوں اور ان کے ساتھ ساتھ اولمپکس، ایشین گیمز، جنوبی ایشیائی گیمز اور کامن ویلتھ گیمز میں کارکردگی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
سکواش
پاکستان سب سے زیادہ کسی کھیل میں کامیاب رہا ہے تو وہ سکواش ہے ۔ اس کھیل کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ورلڈ اوپن ہوتا ہے جو پاکستان نے سترہ مرتبہ جیتا ہے۔ ورلڈ اوپن سے پہلے اس گیم کا سب سے بڑا ایونٹ برٹش اوپن ہوتا تھا جو پاکستان نے 12 مرتبہ جیتا تھا۔ ہاشم خان کو سکواش کا بریڈمین کہا جاتا ہے۔ وہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کے لئے سب سے بڑے لیجنڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام کھیلوں کے سب سے کامیاب کھلاڑیوں کا ذکر کیا جائے گا تو جہانگیر خان کا نام سرفہرست ہوگا جو پانچ سال تک 555 لگاتار میچوں میں ناقابل شکست رہے تھے۔ برٹش میڈیا ہاشم خان اور اعظم خان کی جوڑی اور بعد میں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی جوڑی کو “نواں کلی کا طوفان” یا “فیملی افئیر” کے نام سے پکارتے تھے۔سکواش میں پاکستان ہاکی کی طرح زوال کا شکار تو نہیں مگر ماضی کی طرح کامیاب بھی نہیں ہے۔ اب قومی کھلاڑیوں کی کامیابی ایشیا کی حد تک محدود ہو چکی ہے۔

ہاکی
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور سکواش کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ کامیابیاں اس کھیل میں حاصل کی ہیں۔ ہاکی میں قومی ٹیم نے اولمپکس میں تین گولڈ میڈل اور پانچ سلور میڈل اپنے نام کیے ہیں۔ عروج کے زمانے میں قومی ہاکی ٹیم نے چار مرتبہ ورلڈ کپ جیتا تھا جس میں آخری مرتبہ یہ معرکہ 1994 میں سر کیا گیا تھا۔ پاکستان واحد ایشیائی ٹیم ہے جنہوں نے تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی جیتی مگر اتنی شاندار ماضی کا حامل ملک ہاکی کی موجودہ رینکنگ میں آٹھارویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے لیے اس کھیل میں کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیتنا تو دور کی بات یہاں تک کہ 2016 اور 2020 کے اولمپکس میں قومی ٹیم کوالیفائی کرنے میں بھی ناکام رہی تھی ۔
کرکٹ
کرکٹ پاکستانی قوم کے درمیان سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کھیلوں کے ماہرین کرکٹ کو حد سے زیادہ توجہ دینا دوسرے کھیلوں کے زوال کا ایک وجہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کی دنیا میں کامیابیوں کا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان نے اپنی تاریخ کے دوسرے ہی ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرکے شائقین کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ 1992 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم 2009 میں ٹی 20 اور 2017 میں چیمپئنز ٹرافی جیت کر اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ قومی ٹیم 1999 کے ونڈے اور 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں رنر اپ رہ چکی ہے۔ ٹیسٹ ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کی رینکنگ میں کئی بار پہلی پوزیشن پر براجمان ہو چکی ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں پاکستان اب بھی ایک بہترین پوزیشن میں ہے۔

سنوکر
سنوکر پاکستانی شہروں میں نوجوانوں کا پسندیدہ گیم ہے۔ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر کئی مرتبہ فاتح بن کر اپنے ملک واپس لوٹ چکے ہیں۔ 1994 میں پاکستان کے محمد یوسف پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپیئن اور پھر 2006 میں ورلڈ ماسٹرز چیمپیئن شپ کا اعزاز جیت چکے۔ اس کے بعد محمد آصف نے 2012 اور 2019 میں دو مرتبہ ورلڈ چیمپئن شپ جیتنے کی اعزاز حاصل کی ۔
کبڈی
پاکستان خصوصاً پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں کبڈی کھیلنے اور دیکھنے کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ کبڈی ورلڈ کپ کے فائنل میں اکثر بھارت اور پاکستان آمنے سامنے ہوتے ہیں مگر ورلڈ کبڈی فیڈریشن ہندوستان کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے اکثر متنازع فیصلوں کی وجہ سے بھارت ٹرافی اٹھانے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔ 2020 میں پاکستان میں پہلی مرتبہ کبڈی ورلڈ کپ کا انعقاد کیا گیا اور انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان فائنل میں روایتی حریف بھارت کو 41 کے مقابلے میں 43 پوائنٹ سے ہرانے میں کامیاب ہوچکا اور یوں کبڈی چھٹا کھیل بن چکا جس میں پاکستان ورلڈ چیمپیئن کا اعزاز حاصل کر چکا۔
ریسلنگ
ریسلنگ کی دنیا میں پاکستان کی کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایشیائی گیمز میں پاکستان کی طرف سے اب تک جیتے گئے ٹوٹل 44 گولڈ میڈلز میں 21 گولڈ میڈل ریسلنگ میں جیتے جا چکے ہیں۔ برٹش انڈیا کا گاما پہلوان ناقابل شکست ورلڈ چیمپیئن رہ چکے ہیں جس کے بھتیجے بولو پہلوان نے 1960 کی دہائی میں پاکستان کے لئے ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ جیتا تھا۔

ٹینس
ٹینس میں پاکستان کی کامیابیوں کی تاریخ اتنی طویل نہیں۔ 2010 میں پاکستان کے اعصام الحق قریشی نے اس وقت تاریخ رقم کی جب وہ یو ایس اوپن میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ فائنل میں پہنچے۔ اس کے بعد اعصام الحق اور عقیل خان نے کئی بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں پاکستان کے لیے ٹرافیاں و تمغے جیتے ۔
اولمپکس
پاکستان کی اولمپکس میں کامیابیاں ہاکی کی حد تک محدود رہی ہیں کیونکہ ٹوٹل دس تمغوں میں پاکستان نے آٹھ اس کھیل میں جیتے ہیں۔ ہاکی میں زوال کی وجہ سے پاکستان کے لیے اب اولمپکس میں تمغے جیتنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ 2020 میں اس وقت امید کی کرن جاگی جب ارشد ندیم نے ٹوکیو اولمپکس میں جولیئن تھرو میں سلور میڈل حاصل کیا۔
ایشیائی گیمز
پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ان کھیلوں کو لانچ کرنے میں میں بانی کا کردار ادا کیا تھا۔ قومی کھلاڑیوں نے اب تک ان کھیلوں میں 44 گولڈ میڈل حاصل کیے گئے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا چودھواں نمبر بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے اچھی کارکردگی 1962 جگارتا گیمز میں دکھائی تھی جب آٹھ گولڈ میڈل کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ آخری مرتبہ 1990 میں بیجنگ گیمز میں چار گولڈ میڈل کے ساتھ چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اس کے بعد کی پوزیشن کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018 کے مقابلوں میں پاکستان ایک گولڈ میڈل حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
کامن ویلتھ گیمز
ان کھیلوں میں پاکستان نے اب تک 27 گولڈ میڈل جیتے ہیں جن میں بہترین کارکردگی 1962 کے پرتھ گیمز میں دکھائی تھی جب میڈل ٹیبل پر پاکستان 8 گولڈ میڈلز کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر موجود تھا۔ 2020 کے برمنگھم گیمز میں پاکستان نے دو گولڈ سمیت ٹوٹل سات تمغوں کے ساتھ اٹھارہواں پوزیشن حاصل کیا تھا۔ پاکستان کا تاریخی لحاظ سے مجموعی طور پر ان کھیلوں میں پندرہواں نمبر بنتا ہے۔
جنوبی ایشیائی گیمز
جنوبی ایشیا کے سات ممالک کے درمیان 1984 سے یہ مقابلے شروع کیے گئے ہیں۔ دو مرتبہ اس ایونٹ کا انعقاد اسلام آباد میں ہو چکا ہے۔ 2023 کا ایونٹ بھی پاکستان میں شیڈول ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان ان کھیلوں میں بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ بھارت نے 900 گولڈ اور تقریبا 2000 ٹوٹل تمغے جیتے ہیں جبکہ پاکستان 300 طلائی اور گیارہ سو سے زائد ٹوٹل تمغے جیت چکا ہے۔ سری لنکا 200 طلائی تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
2019 کے آخری ایونٹ میں پاکستان 32 طلائی تمغوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا تھا جبکہ بھارت کے طلائی تمغے 173، نیپال کے 51 اور سری لنکا کے 40 تھے ۔
خوشحال خان خٹک: ایک عہد ساز شخصیت
خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ اور اہمیت
رياست ہائے متحدہ امریکہ (USA) کی تاریخ : ایک عالمی طاقت کی کہانی
Hockey 😥😥