پاکستان پیپلز پارٹی، سب سے بڑی پارٹی سے ایک صوبے کی پارٹی بننے تک

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پاکستان پیپلز پارٹی جھنڈا

چاروں صوبوں کی زنجیر اور وفاق کی علامت کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اب صرف اندرون سندھ کی پارٹی بن چکی ہے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کس طرح پارٹی کو ایک مرتبہ پھر ایک ملک گیر جماعت بنائے۔ کیونکہ یہ جماعت چار مرتبہ ملک پر حکومت اور کئی مرتبہ اپوزیشن کی قیادت کر چکی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967 میں لاڑکانہ کے ایک جاگیردار  اور بااثر خاندان کے چشم و چراغ ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں رکھی تھی۔ صرف ایک سال پہلے تک بھٹو، جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے طور پر شامل تھے۔ مگر دونوں کے ایک دوسرے سے اختلافات کی وجہ سے راہیں جدا ہوئیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے 1965 کے صدارتی الیکشن اور پاک بھارت جنگ کے بعد جنرل ایوب خان کا زوال شروع ہوا۔ قوم آمریت سے تنگ آ چکی تھی۔ ان کو ایک جمہوری رہنما کی تلاشں تھی جو حکومت کا قبلہ درست کریں۔ مشرقی پاکستان کی عوام کو شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کی عوام کو ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں یہی رہنما نظر آئیں۔ یوں اپنے قیام کے صرف تین سال بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران بنے۔

ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ

ذوالفقار علی بھٹو کو آج بھی پاکستانیوں کی طرف سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن کے وجوہات ملک کو متفقہ آئین دینا،  آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنا، اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور میں عالم اسلام کے سربراہان کے سامنے اسلامی اتحاد کا منصوبہ پیش کرنا،” ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے” کے اعلان کے ساتھ پاکستان کو دنیا کے ساتویں نیوکلیئر پاور بنانے کے سفر کا آغاز کرنا، بہارت کے ساتھ کامیاب شملہ معاہدہ کرنا اور پاکستانیوں کو ملک سے باہر روزگار فراہم کرنا وغیرہ تھیں۔ 

اس زمانے میں اکثریت کی رائے میں بھٹو کی پھانسی کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو چکی۔ مگر بھٹو کی جانشین،  ان کی بڑی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے یہ تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت کر دی۔ ضیاء کا طویل مارشل لاء دور اس جماعت کے لیے ایک کٹھن امتحان سے کم نہ تھا۔ پارٹی کی اکثر قیادت یا تو جلاوطنی پر مجبور تھی یا جیلوں میں تھی۔  بے نظیر بھٹو آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی رہی یہاں تک کہ پورے ملک میں ایک کہاوت مشہور ہوئی کہ” بندوقوں والے ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے۔” 

بینظیر بھٹو

انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو جدید تاریخ میں عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی راستے پر گامزن تھی۔ دو مرتبہ حکومت قائم کرکے بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ بے نظیر بھٹو ایک قابلِ لیڈر ہو کر بھی ایک اہل وزیراعظم ثابت نہ ہو سکی۔ دونوں مرتبہ کی حکومتوں میں ملک کی معیشت تنزلی کی شکار ہوئی۔ بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

ستائیس دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو راول پنڈی میں فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوئی تو پارٹی کی قیادت ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آئی. 2008 کے انتخابات میں کامیابی پاکر پارٹی چوتھی مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔ مگر اس مرتبہ بھی پی پی پی حکومت وہی معاشی محاذ پر ناکام ہو چکی۔ بلکہ مشرف دور میں شروع ہوئی دہشت گردی کو لگام دینے اور سنگین توانائی بحران کو حل کرنے میں تو بری طرح  ناکامی دیکھنی پڑی۔  حکومت کی واحد کامیابی قانونی و آئینی اصلاحات تھے۔ آئینی ترامیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری دینے جیسا تاریخی اقدام تھا یا صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنا، نگران حکومت اور نیب چیئرمین کی تقرری کو شفاف بنانا تھا یا گلگت بلتستان کو خود مختاری دینا، یہ سب قابل تحسین اقدامات تھے۔  یہی نہیں بلکہ صدر زرداری نے بڑے دل کا مظاہرہ کر کے صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس وزیراعظم کو دے کر آئین کو اپنی اصلی شکل میں بحال کر دیا۔ پیپلزپارٹی کی مسلم لیگ کے ساتھ 2006 کے میثاق جمہوریت ہی کی طفیل 2013 میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اقتدار دوسرے حکومت کے حوالے کردیا۔

بلاول بھٹو زرداری

دو ہزار تیرہ اور 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ سے نشستیں حاصل کرنے کی وجہ سے سندھ میں حکومت بنانے میں تو کامیاب رہیں مگر وفاق کی سطح پر کامیاب نہ ہو سکیں۔ موجودہ اسمبلی میں پی پی،  پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کے بعد تیسری بڑی  پارٹی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ بلاول بھٹو کس حد تک اپنی پارٹی کو ایک نمبر پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن، کیا صحیح کیا غلط

پاکستان تحریک انصاف، وہ پارٹی جس نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *