مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
پارلیمانی نظام ہی کیوں
ہندوستان اور پاکستان 1947 سے پہلے برطانیہ کی کالونیاں تھیں۔ انگریزوں نے یہاں جمہوری پارلیمانی نظام رائج کیا تھا۔ آج بھی ان ممالک کے سیاسی نظام دراصل برطانوی پارلیمانی نظام کے نقول ہیں۔ مگر برطانیہ اور ہندوستان میں مضبوط پارلیمان کے برعکس پاکستان میں پارلیمنٹ کی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ آج کے بلاگ میں ان اسباب پر غور کریں گے جس نے اس معزز ایوان کی طاقت کو کم کر دیا ہے۔
سیاستدانوں کا کردار
چونکہ پارلیمان میں سیاستدان موجود ہوتے ہیں اس لئے سب سے پہلے یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہر اسں بات اور کام سے اغراض کریں جس سے پارلیمان کی بے توقیری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ اول تو وزیراعظم اور وزرا کی جانب سے پارلیمانی اجلاسوں اور امور میں عدم دلچسپی سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ وزیر اعظم اہم اعلانات پارلیمان کے بجائے قوم کو خطاب کے ذریعے کرتے ہیں۔ حکومتی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا رویہ بھی اس طرح ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے پالیسیوں اور لائحہ عمل کو پارلیمان میں بیان کرنے کے بجائے پریس کانفرنسوں کا سہارا لیتے ہیں۔ قومی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرائے جاتے ہیں حالانکہ پارلیمان کا بنیادی کام بھی انہیں قومی مسائل کا حل پیش کرنا ہوتا ہے۔
عدلیہ کا کردار
پاکستان میں پارلیمان کی بے توقیری کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانا ہے۔ سیاسی معاملات کو سیاست دانوں نے حل کرنا ہوتا ہے، ججوں نے نہیں۔ پچھلے 70 سالوں سے جاری اس عمل کی وجہ سے ایک طرف مقننہ اور انتظامیہ کی اختیارات میں کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری طرف عدلیہ کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے یعنی کہ حکومت کے تینوں شعبوں کے درمیان طاقت کا توازن برقرار نہیں ہے۔ 2012 میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور 2017 میں وزیراعظم نواز شریف کو عدلیہ کی جانب سے اپنے عہدوں سے سبکدوش کرنا انتہائی حیران کن ہے۔ بھلا غیر منتخب افراد (جج صاحبان) عوام کے منتخب کردہ رہنماؤں کو کیسے گھر بھیج سکتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی طاقت
وطن عزیز میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور مقننہ اور انتظامیہ کے گرفت میں نہیں ہے۔ اگر چہ وفاقی حکومت میں وزیر دفاع اور وزیر خارجہ شامل ہوتے ہیں مگر اصل میں امور خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق تمام فیصلے قومی سلامتی کمیٹی میں لیے جاتے ہیں جن میں فوجی سربراہان بھی موجود ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں آخری فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے تو بھلا پارلیمان کیسے مضبوط ہوگا۔
پارلیمانی نظام میں حکومت پارلیمان کو مکمل طور پر جواب دہ ہوتا ہے مگر ہمارے ملک میں حکومت اور وزیراعظم اپنے آپ کو ان پابندیوں سے مبرا اور آزاد سمجھتے ہیں۔ اسی نظام میں پارلیمانی کمیٹیاں انتہائی با اختیار ہوتی ہیں مثلاً یہ کمیٹیاں فوج اور دیگر وفاقی اداروں کے سربراہان کو بھی طلب کر سکتی ہیں مگر یہاں تو گنگا الٹا بہتا ہے۔
یہی تمام وجوہات الگ الگ یا مل کر ہمارے نظام کو کھوکھلا کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔
دیگر وجوہات
اس کے ساتھ کئی دیگر وجوہات بھی موجود ہیں جو بلواسطہ یا بلا واسطہ پارلیمان کو کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مثلاً دھاندلی زدہ انتخابات، آئین و قانون کی عدم پیروی، ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا، سیاسی شعور کا نہ ہونا، سیاست میں نظریات اور اصولوں کے برعکس صرف کرسی تک پہنچنے کا دوڑ اور ذمہ دار عہدوں پر بیٹھنے والوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کا احساس نہ ہونا وغیرہ۔

دراصل جمہوریت اور خصوصاً پارلیمانی نظام ایک پیچیدہ نظام ہے جو عام آدمی کے سمجھ میں آسانی سے نہیں آ سکتا یہ ان ممالک میں کامیاب ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہو۔ پاکستان میں جہالت کی انتہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار خواہ وہ سیاستدان ہو، جج، جرنیل یا بیوروکریٹ وہ اپنے ڈومین کے اندر کام کرنے کے بجائے دوسروں کے کام میں مداخلت کا روش اپنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ عوام تماشہ کرنے کے قابل بھی نہیں کیونکہ تماشہ کرنے کے لئے بھی کھیل کے اصولوں سے باخبر ہونا لازمی ہے۔
فسطائیت (فاشزم) کیا ہوتا ہے؟ کونسی ریاست فسطائی ریاست ہوتی ہے؟
پاکستان میں جمہوریت کی مختصر تاریخ