پاکستان میں جمہوریت کی مختصر تاریخ

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان ہندوستان کا حصہ تھا۔ بیسویں صدی میں انگریزوں نے یہاں جمہوریت متعارف کروائی۔ 1935 کے ایکٹ کے تحت 1937 اور 1946 کے انتخابات منعقد ہوئے۔ 1946 کے انتخابات میں جو نمائندے موجودہ پاکستان کے علاقے سے مرکزی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔  ان سے ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی تشکیل دے دی گئی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت انگریز دور کے جمہوریت کی تسلسل ہے۔ 

پاکستان میں جمہوریت کیوں نہ پنپ سکی

 کسی بھی ملک میں جمہوریت کی کامیابی کے لیے کچھ شرایط درکار ہوتے ہیں مثلا کہ عوام کا سیاسی طور پر باشعور ہونا، عوامی نمائندوں اور عوام میں برداشت کا مادہ موجود ہونا، احساس ذمہ داری، انصاف، آزاد عدلیہ، آئین کی بالادستی اور ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دینا وغیرہ۔

وطن عزیز میں جمہوریت کے لیول کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 30 سال سے زائد کے عرصہ تک تو فوج نے ملک پر حکومت کی یا یہ کہ پہلے عام انتخابات کا انعقاد آزادی کے 23 سال بعد 1970 میں ہوا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر خود جمہوریت کی اتنی کمی ہے کہ جماعت اسلامی کے علاؤہ تمام جماعتیں ایک ایک خاندان کی گرفت میں ہیں۔ یہی پارٹی سربراہان آمروں کی طرح اپنی پارٹیاں چلاتے ہیں۔

تاریخی حوالے سے اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کا جائزہ لیں تو آزادی کے صرف ایک ہفتہ بعد 22 آگست 1947 کو گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے خیبرپختونخوا کے منتخب حکومت (ڈاکٹر خان صاحب حکومت) برخاست کر دی اور اس غیر جمہوری اقدام کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہ لوگ( خدائی خدمتگار) ملک کے وفادار نہیں۔ اب ایک ہفتہ کے اندر ان لوگوں نے ملک سے کیا غداری کی تھی وہ آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ ایک غیر منتخب مسلم لیگی رہنما عبدالقیوم خان کو صوبے کا وزیر اعلی بنایا گیا جو کسی بھی لحاظ سے ایک آمر سے کم نہ تھے۔

انیس سو پچاس کی دہائی میں فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو کابینہ میں شامل کرنا ہو یا گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے اسمبلی کو توڑنا، بار بار جمہوریت کو نشانہ بنایا گیا کیا بالآخر صدر سکندر مرزا نے 1958 میں ملکی آئین کو ختم کرکے مارشل لا لگایا اور پاکستانی قوم کو جمہوریت کی اگلی صبح دیکھنے کے لیے تیرہ سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اس طویل آمرانہ دور میں ایک مثبت اقدام 1970  کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد تھا مگر فوجی حکومت کی طرف سے عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر پہنچ چکا۔ جس کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔

خدا خدا کر کے ملک میں جمہوری نظام بحال ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو ایک جمہوری رہنما کم اور ایک سویلین آمر زیادہ ثابت ہوئے ہوئے۔ آپ ہی نے بلوچستان کے منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا اور ولی خان سمیت سرکردہ اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

جنرل ضیاءالحق کے 11 سالہ آمرانہ دور کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو جمہوری حلقوں نے سکھ کا سانس لیا. مگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں (مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی)  کے منفی طرز عمل نے نے تمام کیے پر پانی پھیر دیا اس نام نہاد جمہوری دور میں جمہوریت کا خوب مذاق اڑایا گیا ۔جس کا نتیجہ اگلے نو سالہ فوجی حکومت کی شکل میں نکلا۔

میثاق جمہوریت

اگر ہم 75 سالہ تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو 2006 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان میثاقِ جمہوریت کا معاہدہ سب سے زیادہ سود مند ثابت ہوا۔ جس کی وجہ سے 2018 تک جمہوریت نے قدرے بہتری کی طرف سفر کیا. اور 2013 میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے پانچ سال مکمل کر کے پرامن راستے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی اچھا کام تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہتا اور سابق (عمران خان) حکومت میں جمہوریت تیزی سے تنزلی کا شکار ہوا۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے، وزیراعظم کی طرف سے ان کو ملاقات کا وقت  تک نہ دینے، ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے، کئی معاملات میں پارلیمان کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے جمہوریت کے ساتھ ایک کھلواڑ کیا گیا۔

جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والے

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے بلکہ یہ زیادتی ہوگی کہ ان رہنماؤں کا ذکر نہ کیا جائے۔ جنہوں نے جمہوریت کی بحالی اور ترقی کے لیے حد سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں۔ سیاست دانوں میں نواب زادہ نصراللہ خان، شیخ مجیب الرحمٰن، خان عبد الولی خان، بے نظیر بھٹو، فرحت اللہ بابر، عبدالصمد خان اچکزئی، رضا ربانی، افراسیاب خٹک، حاصل بزنجو وغیرہ۔ ادیبوں اور صحافیوں میں فیض احمد فیض، احمد فراز، حبیب جالب، وارث میر، حامد میر وغیرہ، وکلاء میں عاصمہ جہانگیر، لطیف آفریدی، اعتزاز احسن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

یاد رکھیں کہ موجودہ دور میں دنیا میں ان اقوام کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جن کے ممالک میں جمہوریت قائم ہوں۔جہاں عوام کو اظہار رائے کی آزادی، سیاسی نظام میں شمولیت اور شخصی آزادی میسر ہو۔

جمہوریت کیا ہے اور موجودہ دنیا میں جمہوریت کا کیا حال ہے

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *