پاکستان مسلم لیگ ن، کیا صحیح کیا غلط

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پاکستان مسلم لیگ کا انتخابی لوگو

وطن عزیز میں تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی کی وجہ سے تنگ نظری، انتہا پسندی، عدم برداشت، تشدد پسندی اور گالم گلوج کی سیاست عروج پر ہے۔ ہر ایک سیاسی جماعت کے رہنما اور کارکنان دوسری جماعت کے رہنماؤں کو ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی کارکن مخالف سیاسی جماعت کی بہتر کارکردگی کی تعریف کے لیے تیار نہیں ہے، خواہ اس سے ملک و قوم کا کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہوا ہو۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے مثبت کام کو سراہنے سے پہلے دوسرے سیاسی جماعت کے کارکنان کی طرف سے گالیاں سننے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے معیار پر پورا نہ اتر سکی۔ 

پاکستان مسلم لیگ ن

آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت تھی۔ یہ جماعت چند مسلم رہنماؤں نے 1906 میں قائم کی تھی۔ اس جماعت کو تقسیم ہند کا زمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد یہ جماعت مفاد پرست اور موقع پرست سیاستدانوں کی ایک ٹولہ بن گئی۔ جن کی عوام کی فلاح کے لیے کام کرنے سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں یہ دو پارٹیوں کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ میں تقسیم ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس کے بطن سے مسلم لیگ جونیجو گروپ پیدا ہوا۔ اور 1993 میں ہوتے ہوتے مسلم لیگ ن وجود میں آچکی۔ اب پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ اور آج کے مسلم لیگ ن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ مگر اتنا ہے کہ مسلم لیگ کے آدھ درجن دھڑوں میں سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ مقبول و مضبوط جماعت ہونے کے ناطے اب یہی جماعت ہی مسلم لیگ ہے۔

مسلم لیگ کے قائد نواز شریف ہے جو تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم اور دو مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رھ چکے ہیں۔ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف تین مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رھ چکے ہیں اور آج کل وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہے۔ اسی جماعت کے رفیق تارڑ اور ممنون حسین پاکستان کے صدر رھ چکے ہیں۔ مسلم لیگ واحد جماعت ہے جس نے ایک مرتبہ (1997) انتخابات میں قومی اسمبلی کے اندر دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی۔ اس جماعت کا گڑھ راوالپنڈی سے لاہور تک پنجاب کا صنعتی اور شہری علاقہ ہے اور جماعت کے اکثریتی کارکنان مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔

شریف برادران

انیس سو نوے کی دہائی اس جماعت یعنی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منفی سیاست کی نذر ہوئی۔ ایک جماعت حکومت میں ہوتی تو دوسری کی تمام توانائیاں حکومت گرانے میں صرف ہوتیں۔ اس زمانے میں مسلم لیگ اسٹبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 کے انتخابات سے پہلے بےنظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ایوان صدر میں مہران بینک کے ذریعے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل پارٹیوں کے درمیان پیسے تقسیم کیے گئے، تو مسلم لیگ بھی پیسے لینے والوں میں شامل تھی۔ مہران بینک سکینڈل کے نام سے سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ زیر سماعت رھ چکا ہے۔ اسی طرح اسی زمانے میں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ چل رہا تھا تو مسلم لیگ کے کئی رہنماؤں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا۔ کئی ماہرین آج بھی بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر چہ اب مسلم لیگ اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ مگر اگر پھر بھی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کوئی امید کی کرن نظر آئے تو پھر “ووٹ کو عزت دو” والا پرکشش نعرہ ہوا میں اڑ سکتا ہے۔

بارہ اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو ختم کرکے فوجی حکومت قائم کی۔ شریف خاندان اور کئی سرکردہ مسلم لیگی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بعد میں سعودی حکومت کی مداخلت پر شریف خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ اس دور میں اکثر لوگوں کی یہ سوچ تھی کہ مسلم لیگ ن کی سیاست ختم ہوچکی۔  مگر یہی پارٹی 2013 میں ایک مرتبہ پھر برسر اقتدار آئی۔ 

2006 میں جلاوطنی کے دوران ملک کے دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ” میثاق جمہوریت” پر دستخط ہؤئے۔ جن کے مطابق یہ عہد کیا گیا کہ 1990 کی منفی سیاست کا اعادہ نہیں کیا جائے گا اور آیندہ انتخابات میں جو جماعت بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ اسے پانچ سال کی معیاد پورا کرنے دیا جائے گا۔ اسی معاہدے کا مثبت نتیجہ نکلا اور اس کے بعد دو حکومتوں نے اپنا معیاد پورا کیا۔ 

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف

اگر اندھی مخالفت کے عینک اتار دیے جائے اور مسلم لیگی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ تو یہ ماننا پڑے گا کہ دوسری حکومتوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ہر مرتبہ معاشی میدان میں آگے رہی۔  2013 سے 2018 تک معاشی ترقی کی شرح  پیپلز پارٹی کی پچھلے اور پی ٹی آئی کی بعد کی حکومت سے زیادہ رہی۔ دونوں حکومتوں کے مقابلے میں مہنگائی اور کرپشن بھی انتہائی کم تھی۔  میگا ترقیاتی منصوبوں مثلاً موٹر ویز ، میٹرو بس، میٹرو ٹرین، بجلی گھروں وغیرہ کی تعمیر میں تو کوئی دوسری حکومت ان کے قریب بھی نہیں۔ ماضی میں ملکی سلامتی کے خاطر ایٹمی دھماکے کرنے کا دلیرانہ فیصلہ ہو یا سی پیک کا گیم چینجر منصوبہ کریڈٹ نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نواز شریف کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ کہ ملک کی معاشی بدحالی کا زمہ دار نواز شریف ہے۔ اسے سب سے بڑا چور قرار دے دیا گیا۔ مگر عدالتوں میں اس پر کچھ بھی ثابت نہ کر سکے۔ حال ہی میں عمران خان حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرکے شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں۔ شہباز شریف پارٹی میں صدر اور مریم نواز نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے پارٹی اگلی نسل کو منتقل ہونے جارہی ہے۔

مریم نواز شریف

ہمیں اپنے تمام سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی کا اس طرح جائزہ لینا چاہیے کہ اچھے کاموں پر داد اور غلط اقدام پر تنقید کرنا چاہیے۔ گالم گلوج اور پگڑیاں اچھالنے میں نہ ملک کا بھلا ہے نہ قوم کا۔

پاکستان تحریک انصاف، وہ پارٹی جس نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا

پاکستان پیپلز پارٹی، سب سے بڑی پارٹی سے ایک صوبے کی پارٹی بننے تک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *