مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
2013 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے نواز شریف پہلے پاکستانی بنے جو تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ نئی حکومت کو گزشتہ حکومت سے تین بڑے چیلنج ورثے میں ملے جو دہشتگردی، توانائی بحران اور خراب معیشت تھیں ۔
دہشت گردی کی روک تھام
نواز حکومت نے ملک کی پہلی سیکیورٹی پالیسی بنائی۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا گیا، بعد میں حکومت کی طرف سے طالبان پر حکومت کا ساتھ نہ دینے کا الزام لگا کر کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن “ضرب غضب” کا آغاز کر دیا گیا۔ دوسری طرف کراچی میں رینجرز آپریشن کے ذریعے امن و امان کی بحالی کا مشکل ٹاسک بھی بخوبی سرانجام دے دیا گیا۔ نواز حکومت کے خاتمے تک ملک میں 80 فیصد تک دہشت گردی کم ہوئی تھی۔
سی پیک
نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا بیرونی دورہ چین کا کیا دونوں ممالک کے درمیان کئی بڑے منصوبوں پر دستخط کئے گئے۔ اپریل 2015 میں صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے نام سے ایک ملٹی بلین ڈالر معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ توانائی بحران اور معیشت کی بحالی میں کافی مددگار ثابت ہوا۔
توانائی بحران
وفاقی حکومت اور سی پیک کے مشترکہ دفاعی منصوبوں کی وجہ سے نواز حکومت نے ملک کی بجلی پیداوار کی صلاحیت کو 18 ہزار میگاواٹ سے بڑھاکر 31 ہزار میگاواٹ تک پہنچا دیا۔ جس کی وجہ سے بجلی کی کمی کا مسئلہ تو بڑی حد تک حل ہو چکا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا تو حکومت نے قطر کے ساتھ پندرہ سالہ گیس معاہدہ کیا اور اس گیس کو درآمد کرنے کے لیے کراچی پورٹ پر ہنگامی بنیادوں پر دو ایل این جی ٹرمینل تعمیر کیے گئے۔ یوں سی این جی اسٹیشن پر کھڑی گاڑیوں کی قطاریں ختم ہوچکی۔

معاشی صورتحال
دہشت گردی اور توانائی بحران کے مسائل پر قابو پالینے اور سی پیک میں شامل جاری ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوئی۔ معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھ کر چھ فیصد تک پہنچ چکی۔ ملکی کرنسی کی قدر میں استحکام دیکھا گیا۔ مہنگائی چار فیصد تک گر چکی۔ تعمیرات کی شعبے میں ترقی کی وجہ سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور لاکھوں لوگ بر سر روزگار ہو چکے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن میں 63ویں نمبر تک نیچے چلا گیا جو اب تک پاکستان کی سب سے بہتر پوزیشن تھی۔ تمام معاشی اشاریوں میں ایک منفی اشاریہ برآمدات میں اضافہ نہ ہونا تھا ۔
میگا پراجیکٹس
مسلم لیگ حکومت کی وجہ شہرت ان کے میگا پراجیکٹس ہوتے ہیں۔ 2013 میں ملک میں موٹروے کی کل لمبائی تقریبا 600 کلو میٹر سے زائد تھی جو 2018 تک ڈھائی ہزار کلومیٹر تک پہنچائی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ گوادر کو سڑک کے ذریعے کوئٹہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ تاخیر کے شکار بڑے منصوبوں جیسا کہ لواری ٹنل اور اسلام آباد ائیر پورٹ کو مکمل کیا گیا۔ لاہور کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور ملتان میں میٹروبس سروس شروع کی گئی۔ کراچی میں میٹرو بس روٹ اور لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔
ملک میں تھری جی فور جی انٹرنیٹ سروس کی شروعات کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب آیا اور آج پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا فری لانس مارکیٹ ہے۔
آرمی چیف کی تقرری
نواز شریف کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف حکومتوں کے برعکس آرمی چیف (راحیل شریف) کو ان کی خواہش کے باوجود عہدے میں توسیع نہ دی۔ پیپلز پارٹی حکومت نے جنرل کیانی اور تحریک انصاف حکومت نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی تھی مگر یہاں بھی وزیراعظم نواز شریف سے ایک غلطی دوبارہ ہوچکی کہ جس طرح وہ جنرل مشرف کو جونئیر ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر کر چکے تھے عین اسی طرح سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا گیا۔ نہ مشرف ان کے لیے نیک شگون ثابت ہوئے اور نہ باجوہ ۔
پاناما کیس اور نواز شریف کی برطرفی
2013 کے عام انتخابات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے خواہشمند تھے مگر مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان قومی اسمبلی میں نشستوں کا فرق اتنا زیادہ تھا کہ نواز شریف وزیراعظم بن ہی چکے ۔ 2014 میں عمران خان کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر وفاقی حکومت سے چار حلقوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا گیا نواز حکومت نے غلطی کرکے عمران خان کے مطالبے کو ہوا میں اڑا دیا۔ جس کے ردعمل میں تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں چار ماہ کا طویل ترین دھرنا دیا گیا۔ جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ یہی دھرنا 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں دہشت گردوں کی طرف سے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے کی وجہ سے ختم ہوا۔

نواز شریف حکومت کی جانب سے جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ شروع کرنے اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی کاروائی کی خبر لیک (ڈان لیکس) ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان تعلقات خراب ہوئے۔ سیاسی ماہرین کی جانب سے نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹانے کے پیچھے یہی وجوہات شامل تھیں۔
سپریم کورٹ کے مقدمے میں جب پانامہ کیس میں نواز شریف کے خلاف کچھ نہ نکل سکا تو ان کے دبئی اقامہ کو بہانہ بنا کر اسے چلتا کیا گیا۔ غیر منتخب جج صاحبان کی طرف سے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنا کبھی بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نواز شریف کو کبھی بھی یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اگر وہ 2012 میں یوسف رضا گیلانی کے ساتھ یہی معاملہ دیکھ کر خوش نہ ہوئے ہوتے ۔
جمعیت علمائے اسلام کی پاکستانی سیاست میں کردار کی تاریخ
دنیا کی تاریخ، دوسرا حصہ، 5000 قبل مسیح سے سن عیسوی کے آغاز تک
علمائے حق اور علمائے سؤ میں کیا فرق ہے؟
Zabardast Sir❤