مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

میرے عمر کے لوگ بچپن میں جب سکول میں پاس ہونے کے بعد نئی کتابیں اور کاپیاں خریدتے تو بک سیلر بچوں کی خوشی کے لئے کاپیوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے تصاویر والے سٹیکر دیتے جس میں انیس سو بانوے کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان عمران خان کا تصویر والا سٹیکر بھی ہوتا۔ چونکہ ہم نے عمران خان کو کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا تو اپنے بڑوں سے سنتے رہتے تھے کہ “عمران خان ایک اچھے کھلاڑی اور پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کامیاب کپتان تھے۔ وہ کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی ہے کیونکہ انہوں نے لاہور میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کے نام سے کینسر کے مریضوں کے لیے ملک کا پہلا ہسپتال بنایا ہے” اور پھر 25 اپریل انیس سو چھیانوے کو یہ خبر سامنے آئی کہ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور اب وہ سیاست کریں گے۔
انیس سو ستانوے اور 2002 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن خان صاحب اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 2008 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ دو تین سال بعد تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف تیزی سے اوپر جانے لگا جن کے وجوہات درج ذیل تھے۔
پہلا : گیلانی حکومت کی دہشت گردی روکنے، توانائی اور معیشت کے بحران کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے اکثریتی کارکنان اپنی پارٹی سے بددل ہو کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر گئے۔
دوسرا : پنجاب کے چوہدریوں نے مشرف آمریت کی مدد سے کامیابی سے مسلم لیگ نون کو چیلنج کیا تھا۔ مگر مشرف جانے کے بعد وہ اپنی مقبولیت کو برقرار نہ رکھ سکے جس سے تحریک انصاف کو پنجاب میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
تیسرا : پاکستانی قوم کا ایک بڑا طبقہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرز حکمرانی سے بیزار ہو چکے تھے یوں وہ ایک تیسری قوت یعنی پارٹی کو سامنے لانا چاہتے تھے۔ تحریک انصاف کی شکل میں انہیں یہ راستہ مل گئی۔
چوتھا : پارٹی منشور میں جن باتوں پر زور دیا گیا تھا وہ پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز تھی مثلا آزاد خارجہ پالیسی یعنی کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے باہر نکلنا، امریکی ڈرون حملوں کو بند کرانا، تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا (جس کی وجہ سے خان صاحب کو طالبان خان کا نام دیا گیا تھا)، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت ( اس نقطے کو بعد میں حذف یا تبدیل کر دیا گیا )، کرپشن کیخلاف جنگ، معیشت کی بحالی، بیرون ملک پاکستانیوں اور نوجوانوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی قیام شامل تھیں۔
پانچواں : دوسری طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان کے دو جماعتی نظام سے نجات چاہتی تھی۔ یوں 2011 کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی پاکستان تحریک انصاف کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اپوزیشن پارٹی کے طور پر
دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پارٹی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور مرکز میں قومی اسمبلی میں تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ انتخابی مہم کے دوران خان صاحب ایک روز سٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو نواز شریف ابھی وزیراعظم منتخب نہیں ہوئے تھے کہ عمران خان کی عیادت کیلئے اسپتال پہنچے اور خان صاحب کو اب فرینڈلی میچ کھیلنے کی دعوت دی مگر خان صاحب اپنے دل میں کوئی اور ارادہ کر چکے تھے۔ جلد ہی نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لیے اسلام آباد میں ایک دھرنا دینا شروع کیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر یہ دھرنا 126دن جاری رہا. دھرنے کے دوران ایک شام کو خان صاحب نے عوام کو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے پر اکسایا باوجود اس کے کہ یہ تحریک حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کی خلاف ہوتی ہے۔ خان صاحب کسی بھی حال میں بھی نواز حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا اس وقت بائیکاٹ کیا جب بھارت کے خلاف کشمیر تنازعہ پر متفقہ پالیسی بنانے کی کوشش کی جارہی تھی یا ترک صدر رجب طیب اردوغان پارلیمنٹ کو تقریر کرنے جارہے تھے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کی سخت اپوزیشن کی وجہ سے نواز حکومت کی کارکردگی میں بہتری آئی۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا نوازشریف کو وزیراعظم کے عہدے سے فارغ کرنے پر تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان نے خوب جشن منائی اور پارٹی اگلے سال انتخابات میں مرکز، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ عمران خان حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان انتہائی خوشگوار تعلقات ہونے کے ناطے یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنیں گے جو اپنے پانچ سالہ معیاد پورا کر سکیں گے لیکن بدقسمتی سے اس بار بھی تاریخ نہ بدل سکا۔ البتہ تین سال آٹھ ماہ حکومت کرنے کے بعد عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے جسے اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عہدے سے ہٹایا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خفیہ ادارے کے سربراہ تبدیل کرنے پر اختلاف پیدا ہوا تھا۔
تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی
کامیابیاں
تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی کو جانچا جائے تو کامیابیوں میں احساس پروگرام، صحت کارڈ، پناہ گاہوں کا قیام، 10 بلین ٹری سونامی کے نام سے نئےجنگلات لگانا، خیبر پختونخوا میں سیاحت کے شعبے کی ترقی، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ، او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد، وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے اقوام متحدہ کا اسلاموفوبیا کا دن مقرر کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
ناکامیاں
دوسری طرف حکومت کی ناکامیاں کامیابیوں سے کہیں بڑھ کر تھیں مثلاً مہنگائی کا طوفان، تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ، کرپشن میں بے پناہ اضافہ( ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کرپٹ ممالک کے صف میں 63ویں نمبر سے 43ویں نمبر پر آ گیا)، قرضوں میں انتہائی اضافہ (تحریک انصاف حکومت اپنے پہلے تین سال میں مسلم لیگ حکومت کے پانچ سال کے برابر قرضہ لے چکی تھی)، پاکستانی کرنسی کی تیزی سے گرتی قدر، معاشی بدحالی کا نوحہ سنا رہے ہیں تو دوسری طرف خان صاحب اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جلسوں میں کھل عام یورپی یونین اور امریکہ پر تنقید کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر گئے۔ یاد رہے کہ آسیہ بی بی (جن پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا) کو خان صاحب نے یورپی یونین اور امریکہ کی ناراض ہونے کی وجہ سے ہی ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ اسی طرح تحریک لبیک نے جب فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تو بھی خان صاحب نے یہی جواز بنا کر سفیر کو ملک بدر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد خان صاحب وطن واپس آئے تو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آج ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسا کہ دوسری مرتبہ ورلڈ کپ جیتا ہو۔ خان صاحب کی ایک بڑی غلطی اپوزیشن رہنماؤں کو دیوار سے لگانے میں اپنی توانائی ضائع کرنا تھی جس کی وجہ سے ملکی ترقی پر توجہ نہ دی جا سکی۔

تحریک انصاف کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی ذریعے بیسیوں نئے چہرے خصوصاً نوجوان پاکستانی سیاست میں نمودار ہوئے۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے مرکز اور پنجاب میں اکثر بڑے عہدے غیر منتخب یا دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے الیکٹیبلز کو دیے گئے۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر کئی گروپ بن گئے۔ حکومت تبدیل ہوتے ہی کئی گروپ پارٹی سے راہ جدا کر گئے۔
پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا ایک فین کلب ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو خان صاحب سے شروع ہوتی ہے اور ان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ خان صاحب ایک بہترین کراؤڈ پولر ہے، بڑے بڑے جلسے کرنے میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ ان کے پارٹی کارکنان ان کی شخصیت کی جادو میں گرفتار ہے اس لیے ان کا بیانیہ کارکنان میں آسانی سے مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی سے پشاور تک کارکنان کا ایک جال رکھتا ہے یعنی اگر کوئی پارٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ پورے ملک کی پارٹی ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، سب سے بڑی پارٹی سے ایک صوبے کی پارٹی بننے تک
پاکستان مسلم لیگ ن، کیا صحیح کیا غلط
Absolutely awesome information for us