پاکستان اور یورپی تعلیمی نظام میں فرق : فن لینڈ کے تعلیمی نظام کا نمونہ

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

پاکستان سے جب بھی کوئی شخص یورپ کے کسی ملک کا سفر کرتا ہے تو واپسی پر وہ اکثر یہ بات کہتا رہتا ہے کہ ہم یعنی پاکستان یورپ سے 50، 100 یا 200 سال پیچھے ہیں۔ اس بلاگ کے پڑھنے سے ہم آسانی سے یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ تعلیمی لحاظ سے ہمارا اور یورپی ممالک کا فاصلہ کتنا ہے۔ سکینڈی نیویا دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور مالدار براعظم یورپ کے چار ممالک سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور فن لینڈ کو کہا جاتا ہے۔ یہ چاروں ممالک امن، خوشی، رواداری، جمہوریت اور معاشی ترقی وغیرہ کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ ممالک ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں تیسری دنیا کے ممالک یعنی پاکستان، بھارت، مصر وغیرہ ترقی پذیر ممالک ہے جو مختلف قسم کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی ملک ترقی یافتہ یا ترقی پذیر کیوں ہوتا ہے اس کی کئی وجوہات ہوتے ہیں جس میں ایک اور سب سے اہم وجہ اس ملک کا تعلیمی نظام ہوتا ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام بے شمار خامیوں سے بھرا پڑا ہے مثلا یہاں بچوں پر زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالنے والا اسکول معیاری اسکول کہلاتا ہے یا وہ اسکول اچھا اسکول کہلاتا ہے جو زیادہ فیس لیتا ہوں۔ بچوں کو جسمانی سزا دینے سے لے کر ان کی بے عزتی کرنا عام سی بات ہے۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن سے سرکاری اسکولوں کے معیار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بورڈ کے امتحانات میں نقل کی بھرمار اور اساتذہ کی جانب سے بچوں کو “الف” سے “ی” تک پورا موضوع سمجھا کر اور لکھ کر دینے سے رٹہ کی عادت کو پروان چڑھایا گیا ہے جبکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیت اور خود سے سیکھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام صرف نوکر، چاکر اور خدمت گار پیدا کر رہے ہیں جن کے ذہنوں کو تالے لگے ہوئے ہیں جو نہ خود نیا سوچتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے نئے سوچ و خیال کو قبول کرتے ہیں۔ پوری طرح سے خود پرستی، دولت پرستی اور شخصیت پرستی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے لوگ غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ تنگ نظری اور انتہا پسندی کی پہاڑی پر سیر کرنے والے یہ صاحبان خود کو دنیا کے امام سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے ایک گاؤں کا سکول

آئیے جائزہ لیتے ہیں تصویر کی دوسری رخ کا۔ فن لینڈ میں سات سال کی عمر میں بچوں کو سکولوں میں داخل کیا جاتا ہے اس سے پہلے اگر ایسے بچے ہوں جن کے والدین روزگار کر رہے ہو تو ان بچوں کو دن کے اوقات میں ڈے کئیر سنٹر میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں بچوں کو کھیلنے کودنے کے لیے ایک پارک جیسا ماحول فراہم ہوتا ہے وہاں وہ مٹی اور ریت میں کھیلتے رہتے ہیں۔ وہاں اسکولوں میں بچوں کے لئے یونیفارم کا کوئی قید نہیں ہے۔ یونیفارم کو بچوں پر اضافی بوجھ خیال کیا جاتا ہے۔ نہ پاکستان کی طرح بچوں کے لمبے بال یا ناخن رکھنے پر کوئی پابندی ہے۔

سب بچوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع اور یکساں تعلیمی نصاب اور نظام رائج ہے۔ تمام بچوں کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے اور وہ اتنی رقم ہوتی ہے جس میں وہ اپنے لئے ہر مہینے ایک نیا سوٹ خرید سکتے ہیں۔ ہر ایک کلاس کا اپنا ایک استاد مقرر ہوتا ہے جو انہیں تمام مضامین پڑھاتے ہیں۔ اسکا یہ فایدہ ہوتا ہے کہ استاد اور بچوں کے درمیان ایک خاص رشتہ بن جاتا ہے اور وہ ہر بچے کی ذہنی سطح اور سیکھنے کی صلاحیت کو جان کر ان کے ساتھ ویسا پیش آتا ہے جیسا کہ ضرورت ہوتا ہے۔ آخر میں استاد ہر ایک شاگرد کے بارے میں ریمارکس دیتا ہے اور اس ریمارکس کو بچے کے دوسرے ادارے یعنی کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کے وقت دیکھا جاتا ہے۔ وہاں پاکستان کی طرح بورڈ امتحانات کا کوئی نظام نہیں ہے بلکہ ہر سکول اپنے تمام امتحانات خود لیتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی میں داخلے کے وقت صرف گریڈ کو نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ ہر طالب علم کی سماجی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔

فن لینڈ میں ایک کلاس روم کا منظر

یونیورسٹی میں بی ایس کا پروگرام 180 کریڈٹس پر مشتمل ہوتا ہے اب یہ طالب علم پر منحصر ہے کہ وہ اسے 3 سال میں مکمل کرتا ہے یا 5 سال میں۔ اگر کوئی طالب علم سالانہ 60 کریڈٹس پورا کرتا ہے تو ان کو اپنے ماہانہ وظیفہ کے علاوہ سالانہ بونس بھی دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیق کے لئے پرانی علم کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ موجودہ زمانے یا مستقبل سے متعلق علوم میں تحقیق کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے کمانے کے مواقع بھی دیئے جاتے ہیں مثلاً اساتذہ کے ساتھ ان کی مدد کرنے یعنی اسائنمنٹ چیک کرنے جیسے چھوٹے موٹے کام کے ان کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف کمپنیوں کی طرف سے طلباء کو روزگار کی پیشکش کی جاتی ہے۔ یوں یونیورسٹی سے فراغت کے وقت ان نوجوانوں کے ساتھ روزگار کرنے کا تقریبا دو سال کا تجربہ ہوتا ہے۔

وہاں کے تعلیمی اداروں میں سپون فیڈینگ کے لئے کوئی جگہ نہیں کہ استاد بنے بنائے لیکچر نوٹس دے کر ان کی تشریح کریں اور ان چند گنے چنے موضوعات کے اندر پرچے لے کر قصہ ختم کریں۔ بلکہ استاد کی طرف سے موضوع پیش کیا جاتا ہے جن پر طلبا کے درمیان بحث و مباحثہ چلتا ہے۔ کوئی بھی طالب علم اس موضوع سے متعلق کوئی بھی رائے پیش کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اس عنوان پر مزید کام کرنے کے لیے اسائنمنٹ دی جاتی ہے۔ اگر پھر بھی طلباء کی طرف سے کوئی کام باقی رہ چکا ہو تو اساتذہ وہ کام پورا کرکے نئے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ یوں یہ تعلیمی نظام بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو ابھارتا ہے اور نئی آئیڈیاز پیش کرنے والے، سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے والے نوجوانوں کو اپنے پیداوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

فن لینڈ کے ایک پرائمری سکول میں بچے اپنے استاد کے ہمراہ

اب 22 کروڑ کی آبادی رکھنے والے، بہترین پیشہ ور فوج رکھنے والے، ایٹمی طاقت، بہترین آب و ہوا اور بہت زیادہ وسائل کے مالک پاکستان کی تعلیمی نظام اور چند لاکھ آبادی والے، نہ فوج اور نہ بہت زیادہ وسائل رکھنے والے یورپ کے اس سرد ترین موسم کے حامل ملک فن لینڈ کی تعلیمی نظام پر غور کرکے آپ خود اندازہ لگالیں۔ کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہمارے لئے کتنا عرصہ درکار ہے؟ 50 سال، 100 سال یا 200 سال۔

میچوریٹی کیا ہے، میچور کون ہے، میچور شخص کی بارہ نشانیاں

علم، علم کی شاخیں، علماء کی اقسام

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *