مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
ہماری زندگی کا معیار ہماری ملکی معیشت کا عکاس ہوتا ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت دنیا کے سٹیج پر ہماری اہمیت کو گھٹانے کا سبب ہے کیونکہ آج کی دنیا میں ملکوں کے درمیان تعلقات بھی معاشی مفادات پر انحصار کرتے ہیں ۔ جس کا سب سے بڑا مثال عرب ممالک اور بھارت کی انتہائی قریبی تعلقات ہے۔ پاکستان کو آج بے شمار معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اس بلاگ میں پاکستانی معیشت کے بارے میں بنیادی معلومات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ وفاقی بجٹ، پاکستان پر قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، ان کے وجوہات اور حل، بیرونی تجارت کا انتہائی بڑے خسارے کا شکار ہونا، ملک کے اندر مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، غربت، سرمائے کی کمی ، انتہائی کم مقدار بیرونی سرمایہ کاری وغیرہ کے بارے میں بھی جانکاری نہیں رکھتے۔ پاکستان آج تک کیوں ایک ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا، پاکستان کے بڑے بڑے معاشی مسائل کون کون سے ہیں، ان تمام مسائل کا حل کیا ہے اور کیا پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
پاکستان کی جی ڈی پی
تازہ ترین اندازوں کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی 376 ارب ڈالر ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں 42 ویں نمبر پر ہے۔ سوچئیے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک معاشی طور پر 42 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو ہر لحاظ سے دنیا کی پہلی بیس معیشتوں میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ جی ٹونٹی کے نام سے دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں مسلم دنیا سے سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا شامل ہیں جبکہ اتنی زیادہ معاشی پابندیوں کے باوجود ایران دنیا کی سولہویں معیشت بن چکی ہے۔
قوت خرید کے لحاظ سے پاکستان کی جی ڈی پی 1.5 ٹریلین ڈالر ہے اور اس لحاظ سے پاکستان کا دنیا میں 23واں نمبر بنتا ہے۔
پاکستانی معاشی ترقی کی تاریخ پر ایک نظر
انیس سو پچاس کی دہائی میں پاکستان کی سالانہ اوسطاً معاشی شرح نمو چار فیصد، 1960 کی دہائی میں 6 فیصد، 1970 کی دہائی میں 4.5 فیصد، 1980 کی دہائی میں 6 فیصد 1990 کی دہائی میں 4 فیصد، 2000 کی دہائی میں 5.5 فیصد اور 2010 کی دہائی میں 4 فیصد رہی ہیں۔ اب ہم اگر 75 سال کی اوسطاً سالانہ شرح نمو نکالیں تو یہ تقریبا چار سے پانچ فیصد کے درمیان بنتی ہے۔
دوسری طرف ہندوستان، بنگلہ دیش اور چین پچھلے بیس سالوں سے چھ سے آٹھ فیصد کے درمیان کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوام عالم کو اپنے ملک کی معاشی ترقی کی جھلک دکھانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر، افغانستان اور بھارت دشمنی پر تقریر کرکے داد لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

فی کس آمدنی
پاکستان ایک لوئرمڈل انکم معیشت ہے یعنی کہ اتنا ہے کہ پاکستان انتہائی غریب ممالک میں شامل نہیں جہاں فی کس آمدنی تین سو سے پانچ سو ڈالر تک سالانہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ فی کس آمدنی 1658 ڈالر؛ جبکہ بھارت کی فی کس آمدنی 2400 ڈالر ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کا تاریخی جائزہ اور موجودہ حال
پاکستان اب تک تین مرتبہ “سٹیگ فلیشن” کے دور سے گزر چکا ہے اور چوتھی مرتبہ گزر رہا ہے۔ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ جب ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری دونوں کی شرح بلندترین سطح پر ہو۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا پہلا دور ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا زمانہ، دوسرا 1990 کی دہائی، تیسرا 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت اور چوتھا موجودہ دور؛ عمران خان اور شہباز شریف کی حکومت کا زمانہ ہے۔ پاکستان میں اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ شدہ مہنگائی کی سالانہ شرح 37 فیصد تھی جو بھٹو کے دور میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ موجودہ مہنگائی کی شرح بھی پندرہ سے بیس فیصد کے درمیان ہے۔ جبکہ ماہانہ بنیادوں پر تو یہ 30 فیصد تک بھی پہنچ چکی ہے۔
پاکستانیوں کی مالی حیثیت کو دیکھ کر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں چھ فیصد تک مہنگائی عوام آسانی سے اور چھ سے نو فیصد تک مشکل سے برداشت کر سکتے ہیں مگر جب مہنگائی کی شرح دہرا ہندسہ عبور کرے تو پھر یہ ناقابل برداشت بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ایک سے دو کروڑ تک لوگ مڈل کلاس سے نکل کر غریب بن چکے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں بنیادی ضرورت کی چیزیں سو سے ایک سو پچاس فیصد تک مہنگی ہو چکی ہے۔
غربت
بین الاقوامی معاشی اداروں کی طرف سے پاکستان کے لیے مقرر کردہ 3.2 ڈالر یومیہ کے حساب سے پاکستان میں ایک تہائی لوگ غریب ہیں یعنی کہ وہ لوگ جو بیس ہزار ماہانہ سے کم کما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام، خراب معاشی صورتحال اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے غربت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

بے روزگاری
اگر چہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6 فیصد ہے مگر معاشی ماہرین کے مطابق حقیقت میں یہ شرح پندرہ سے بیس فیصد کے درمیان ہے۔ پاکستان میں نجی شعبہ کی کمزوری، بیرونی سرمایہ کاری کی کمی، کم ترقیاتی بجٹ اور محدود معاشی منڈی کی وجہ سے ہم اپنے تعلیم یافتہ نوجوانوں (جو ٹوٹل آبادی میں صرف پانچ سے دس فیصد ہیں) کو بھی روزگار نہیں دے پا رہیں۔
خسارے کی تجارت اور ان کا حل
مالی سال 2021-22 میں پاکستان کی ٹوٹل برآمدات 32 ارب ڈالر اور درآمدات 80 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کو 48 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تجارتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے دو راستے ہیں کہ یا تو برآمدات کو بڑھایا جائے یا اپنی درآمدات کو ممکن حد تک کم کیا جائے۔ زیادہ فائدہ مند راستہ پہلا راستہ ہے۔ اس میدان میں ہماری کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ہمارے 32 ارب ڈالر برآمدات کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی برآمدات 50ارب ڈالر جبکہ بھارت کی تو صرف آئی ٹی برآمدات 200 ارب ڈالر ہیں ۔
قرضوں کا بوجھ
پاکستان پر موجودہ غیر ملکی قرضہ 130 ارب ڈالر ہے۔ یاد رہے کہ اندرونی قرضہ اس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اندرونی قرضہ ملکی بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستانی قرضے جی ڈی پی کی 80 فیصد سے زائد ہیں۔
قرضوں کا تاریخی طور پر جائزہ لیں تو یہ سلسلہ 1971 میں ملک کے دولخت ہونے کے بعد شروع ہوچکا ہے اور اس کے بعد اس رفتار سے اس میں اضافہ جاری ہے کہ ہر چار سال بعد یہ ڈبل ہوتے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں پاکستان پر حکومت کرنے والے تمام حکمران اس مسئلے میں برابر کے شریک ہیں اور تمام اس مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی آمدن 43 ارب ڈالر اور اخراجات 64 ارب ڈالر ہیں تو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے قرض تو لینا پڑے گا۔ ہمیں یا تو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا یا اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
زر مبادلہ کے ذخائر
ابھی ابھی پاکستان دیوالیہ ہونے کے خوف سے باہر آچکا ہے۔ انیس سو نوے کے اواخر میں سیاسی عدم استحکام اور بیرونی معاشی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان جزوی طور پر دیوالیہ ہو بھی چکا تھا مگر دوست ممالک کا ساتھ دینے کی وجہ سے مکمل دیوالیہ ہونے سے بچ چکا۔ پاکستان کی موجودہ زر مبادلہ کے ذخائر صرف 14 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہم سے کم آبادی اور وسائل کے حامل ممالک سینکڑوں ارب ڈالر کی زر مبادلہ کے ذخائر رکھتے ہیں۔
ہماری مغربی سرحد پر واقع ایران دنیا کی 16 ویں بڑی معیشت، مشرقی سرحد پر واقع بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور شمالی سرحد پر واقع چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکی ہے اور ہم دیوالیہ ہونے سے بچنے پر خوشیاں منا رہے ہیں۔
پاکستان کا وفاقی بجٹ
بجٹ آئندہ سال کے لئے آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے پوری دنیا میں پہلے آمدن کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور پھر ان کے حساب سے اپنی اخراجات کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اخراجات کا اندازہ اور حساب پہلے لگایا جاتا ہے پھر اس کو پورا کرنے کے لیے پہلے ملک کی ٹیکس آمدنی اور بیرونی امداد و قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی بجٹ کا پچاسی فیصد حصہ غیر ترقیاتی یعنی نان پیداوار والے مدوں میں خرچ ہو جاتا ہے جیسا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن، قرضوں اور سود کی ادائیگی یا کار سرکار چلانے کے لیے مختص کی ہوئی رقم۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی بجٹ میں دفاع پر بیس سے پچیس فیصد کے درمیان جب کہ تعلیم اور صحت پر مشترکہ طور پر تین فیصد سے بھی کم بجٹ خرچ ہوتا ہے۔
آپ اندازہ لگا لیں کہ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کا وفاقی ترقیاتی پروگرام چار ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف آئی پی ایل نے اگلے تین سال کے لیے اپنے نشریاتی حقوق دو ٹی وی چینلوں کو فروخت کرکے چھ ارب ڈالر سے زائد کا رقم حاصل کیا۔
جب آپ کا اپنا ترقیاتی بجٹ کم ہو، نجی شعبہ کمزور یا مسائل کا شکار ہو ، بیرونی سرمایہ کاری بھی زیادہ نہ ہو اور اس حال میں بھی کرپشن اور بد عنوانی کا بازار گرم ہو تو ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔
معیشت کسے کہتے ہیں، معیشت سے جڑے بنیادی سوالات کے جوابات
رياست ہائے متحدہ امریکہ (USA) کی تاریخ : ایک عالمی طاقت کی کہانی
کیپیٹلزم، کمیونزم اور اسلامی معاشی نظام
Good job 👏
Economy khrab honay k kuch wajoohat political instability, hukamrano ki na ahli, industries, peace process, etc. hai. What’s your thoughts???
In next blog insha’Allah,
Sir Economy strong kese or weak kese Hoti hai , what’s your thoughts?
In next blog insha’Allah