مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
قوموں کی زندگی میں اچھے اور برے دن آتے رہتے ہیں مگر پاکستانی سیاست کا نتیجہ قوم کے لئے ہمیشہ برا ہی نکلتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ملک آج بھی ایک سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اگر ہم پاکستان کے پچھلے 75 برسوں پر محیط سیاست کا جائزہ لے کر ایک تصویر بنائے تو اس تصویر کے نمایاں خدوخال مندرجہ ذیل ہونگے۔
اشرافیہ کا ملک
دراصل تقسیم ہند کے بعد اس ملک کو ایک جاگیردار ٹولے پر مشتمل انگریز کے وفادار سیاستدانوں اور لندن سے تربیت یافتہ فوجی و سول افسران کے حوالے کر دیا گیا ۔ یہی لوگ روز اول سے آج تک اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ہاں صرف اتنی بات ہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں ملک کے 80 فیصد سے زائد وسائل 22 خاندانوں کے قبضے میں تھے اور ہوسکتا ہے کہ آج وہ خاندان ایک سے دو ہزار تک ہو۔ 22 کروڑ لوگ ان خاندانوں کے لیے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں یا ان کے فیکٹریوں، کھیتوں اور کاروبار میں کام کر رہے ہوتے ہیں ۔
مضبوط مرکز
معلوم نہیں کہ کس نے اس ملک کے بااختیار طبقے کے کان میں مضبوط مرکزی حکومت کے فضائل بیان کئے تھے کہ بعد میں جس سیاستدان یا پارٹی کی طرف سے بھی صوبائی خودمختاری کا نعرہ بلند کیا گیا تو ان کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا جبکہ پڑوسی ملک میں 1950 میں ہی صوبوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا گیا تھا۔
فوج کا حاوی کردار
آزادی کے بعد بہت جلد یہ ملک فوجی جرنیلوں کے نرغے میں آ چکا۔ پاکستان کو امریکی معاہدوں میں شامل کرانے کے پیچھے بھی جنرل ایوب خان کا سب سے بڑا کردار تھا ۔ 32 سال تک ملک پر براہ راست حکومت کرنے والا یہ ادارہ اگر حکومت میں نہ بھی ہو تو اصل اقتدار انہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ نامور پختون سیاستدان اور دانشور افراسیاب خٹک کے مطابق اسٹبلشمنٹ خارجہ پالیسی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں کی نگرانی سول حکومت کو ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 1977 سے لے کر 2018 کے انتخابات تک ہر الیکشن میں اسٹبلشمنٹ فریق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اپنی من پسند پارٹیوں کو اقتدار کی کرسیوں تک پہنچانے کے یہ تجربے نہ ملک کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں اور نہ قوم کے لیے۔

طاقتور افسر شاہی نظام
انگریز دور میں حکومتی اداروں کے بڑے عہدے انگریزوں ہی کے لیے مختص ہوتے تھے۔ انگریز اپنے افسران کو تربیت دیتے وقت یہ سمجھاتے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کریں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کو بھی انڈین سول سروس میں افسران کے طور پر بھرتی کیا گیا مگر ان کی ٹریننگ بھی انگریزوں کی طرح ہوتی۔ آزادی کے بعد ان افسران کو رویہ تبدیل کرکے قوم کی خدمت کرنا چاہیے تھی مگر چند ایمان داروں کے علاوہ اکثر محلاتی سازشوں میں شریک ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے منہ موڑ چکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ اکثر حکومت میں شامل وزراء کی بھی نہیں سنتے، عوام کی خدمت کرنا تو دور کی بات ہے ۔
عدلیہ کا متنازعہ کردار
طاقت کے اس گیم میں فوجی حکومتوں کے تمام غلط فیصلوں میں عدلیہ شریک رہی۔ مارشل لا کے بار بار نفاذ کو جائز قرار دینا ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی قتل، وزیراعظم گیلانی کو توہین عدالت کے کیس میں گھر بھیجنا ہو یا نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے بہانے وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانا، اس ادارے نے اکثر انصاف کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔
کمزور جمہوری ادارے
پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلیاں اور بلدیاتی حکومتیں جمہوری ادارے کہلاتے ہیں۔ جب طاقت کا مرکز فوجی ہیڈکوارٹرز ہو، جج منتخب وزراء اعظم کو ہٹانے کے لیے تیار بیٹھے ہو اور بیوروکریٹ سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو، تو جمہوری ادارے کمزور ہی رہیں گے۔

سیاست دانوں کی خود غرضی اور غلطیاں
پاکستانی سیاست کے اس کھیل میں اگر سیاستدانوں کی اپنی غلطیاں شامل نہ ہوتیں تو فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی طاقت کے محور نہ بنتے۔ بدقسمتی سے مفاد پرست سیاست دانوں کے مقابلے میں مخلص سیاستدانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان قابل سیاستدانوں میں 90 فیصد قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ ان کا بیانیہ اسٹبلشمنٹ کے بیانیے سے مختلف ہوتا ہے یوں یہ اکثر زیر عتاب رہتے ہیں۔ مفاد پرست ٹولہ مقتدرہ کا وفادار ہوتا ہے۔ یہ لوگ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ایک قسم کی بولی بولتے ہیں اور جب اپوزیشن میں آ جاتے ہیں تو یکسر مختلف بن جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف کرسی کا حصول ہوتا ہے۔
غداری کے لیبلز تقسیم کرنا
ملک کی آزادی کے صرف ایک ہفتہ بعد 22 اگست 1947 کو خیبر پختونخوا کی حکومت کو ملک دشمن قرار دے کر برطرف کردیا گیا، باچا خان کی زیر قیادت خدائی خدمت گار تحریک پر پابندی عائد کر دی گئی اور ان کے رہنماؤں کو غدار قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔ 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں پر اس وقت گولیاں چلائی گئیں جب وہ بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت میں پہلے فاطمہ جناح اور بعد میں شیخ مجیب رحمان کو غدار قرار دے دیا گیا ۔ جی ایم سید سے لے کر اکبر بگٹی اور منظور پشتین تک وہ تمام قوم پرست جو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں ان پر غداری کے لیبل چسپاں کیے جاتے ہیں۔

پنجاب کی بالادستی
آزادی کے بعد بنگالی ملکی آبادی کا 56 فیصد تھے تو اس وقت ان کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے مغربی پاکستان کا صوبہ بنایا گیا ۔ وسائل کی تقسیم میں بھی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے مقابلے میں کم حصہ دیا جاتا رہا جبکہ ملک ٹوٹنے کے بعد کثرت آبادی کے نام پر پنجاب پاکستانی وسائل پر قابض ہو چکا۔ مثال کے طور پر نیشنل فنانس کمیشن کے 1991 میں جاری کردہ ایوارڈ کے تحت چاروں صوبوں کے درمیان قابل تقسیم محاصل (پیسوں) میں پنجاب کا حصہ 57 فیصد مقرر کیا گیا۔
یہی حال پانی کی تقسیم کا ہے کہ ارسا کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا دریائی پانی میں مجموعی طور پر 10 فیصد سے بھی کم حصہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ اصل میں دونوں صوبوں کو ملنے والا پانی 5 فیصد سے بھی کم ہے اور اس کا وجہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ نہروں کی کمی کی وجہ سے ان کو کم پانی مل رہا ہے۔
ماہرین کی جانب سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ پنجاب کے اندر پیدا ہونے والے زرعی پیداوار پر پنجاب حکومت کا اختیار ہوتا ہے جبکہ باقی صوبوں کی پیداوار مثلاً بلوچستان کی معدنیات، سندھ کی ٹیکس آمدنی، پختونخوا کے بجلی اور زرعی پیداوار پر مرکزی حکومت کا اختیار ہوتا ہے۔
مذہب کارڈ کا استعمال
دراصل پاکستانی لوگ مذہب سے محبت کرنے والے ہیں مگر جہالت کی وجہ سے اصلی اور نقلی میں فرق کرنے سے قاصر ہے یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کے لیے مذہب کے نام پر ان کو دھوکا دینا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کفر کے فتوے جاری ہونے، روس کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے، اسلامی جمہوری اتحاد سے تحریک لبیک تک انتخابات میں مذہب کارڈ کے استعمال اور عمران خان کی طرف سے ریاست مدینہ کے قیام تک سب اسلامی ٹچ کی بہترین مثالیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
تقسیم در تقسیم معاشرہ
کسی ملک کے اندر مختلف مذاہب کے پیروکار یا مختلف زبانیں بولنے والوں کا موجود ہونا کوئی بری بات نہیں ہے مگر پاکستان میں قومی اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کرنے سے ردعمل کے طور پر قوم پرستی کے ساتھ انتہا پرستی شامل ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک مرتبہ تو ملک دو لخت ہو چکا ہے اور مستقبل کی تصویر بھی کچھ اچھا نظر نہیں آرہا۔
فرقہ پرستی معاشرے کے لیے زہر ہے لیکن ان کی وجود سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس قوم کے اندر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے ترانے گانے والے موجود ہیں تو دوسری طرف سیاستدانوں کے اندھے غلام۔ ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو پاکستان سے زیادہ ایران، بھارت، افغانستان، عربوں اور ترکوں سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ مقتدر طبقہ ہوش کے ناخن لیں اور پچھلے پچھتر برس سے جاری دھوکہ دہی کے اس کھیل کو روکیں۔ ملک کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے پچھلے غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ قبلہ درست ہونے کی صورت میں اس ملک کو خدا نے جتنے قدرتی وسائل عطا کیے ہیں ان کے بل بوتے پر صرف بیس سال میں یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی آئینی تاریخ
جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت: کیا اچھا کیا برا
جینیئس کون؟ جینیئس شخص کی نشانیاں