پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

(مصنف : عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر

پاکستان : جغرافیائی محلِ وقوع

انسانوں کی زندگی اور ریاستوں کی تاریخ میں بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا ازالہ ناممکن ہوتا ہے۔ مادر وطن پاکستان کی تاریخ بھی ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے بلکہ میرے سوچ کے مطابق تو شاید ہی اتنی زیادہ غلطیاں کسی اور ریاست نے کی ہو۔ ریاستیں جب اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں تو پھر وہ غلطیاں نہیں کہلاتی۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی پچھلی غلطیوں کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ اور یہی ہماری تنزلی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ذیل میں ہم صرف ان غلطیوں کا ذکر کریں گے جو ابھی تک ہم کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور جن کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔

امریکی اتحادی بننا


ہم سے پہلی غلطی آزادی کے تین سال بعد ہوئی جب ہم  سرد جنگ کے دوران امریکہ کے اتحادی بنے۔ اگر چہ امریکہ نے ہمیں معاشی و فوجی امداد تو فراہم کی مگر دوسری طرف ہم آج تک امریکہ کی اس غلامی سے نہ نکل سکے۔ اس غلطی سے ہمارا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہم نے روس کو اپنا دشمن بنایا۔ ہمارے مقابلے میں بہارت سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار رہا جن سے انکو بے پناہ فائدہ ہوا۔

پاکستان کا پہلا وزیر اعظم : لیاقت علی خان

بنگالی زبان کا مسئلہ


ہم دوسری مرتبہ اس وقت پھسل گئے ۔ جب 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے بنگالی کو قومی زبان قرار دینے کے لیے مظاہرہ کیا تو ان پر گولیاں چلائیں گئیں۔ جن میں کئی طالبعلم قتل ہوئے اور اسی دن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے۔ 

اسمبلی تحلیل کرنا

گورنر جنرل غلام محمد کا زمانہ تھا۔ 1954 میں قومی اسمبلی کے اندر گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کا بل زیر بحث تھا کہ پارلیمانی نظام کو اپنی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ گورنر جنرل نے نے غیر قانونی قدم اٹھاتے ہوئے اسمبلی ہی توڑ ڈالی۔ سپیکر مولوی تمیز الدین کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی۔ مگر گورنر جنرل نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔  سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے اس غیر آئینی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا۔ یہاں سے پاکستان میں صدر کی طرف سے اسمبلی توڑنے اور سپریم کورٹ کی طرف سے اس ناجائز عمل کو جائز قرار دینے کا یہ رواج شروع ہوا۔ جو جنرل مشرف کے دور تک جاری رہا۔

گورنر جنرل غلام محمد

ون یونٹ سسٹم


انیس سو پچپن میں چودھری محمد علی کی حکومت نے مغربی پاکستان کے صوبوں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو ملا کر مغربی پاکستان کے نام سے ایک صوبہ بنایا۔ لاہور کو اس نئے صوبے کا دارلخلافہ بنایا گیا۔اس کو ون یونٹ کا نام دیا گیا۔ اس اقدام سے چھوٹے صوبوں سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے باسیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ اور یہی احساس آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

پہلا مارشل لاء


انیس سو اٹھاون میں صدر سکندر مرزا نے  1956 کا آئین منسوخ کردیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ یہاں سے پاکستان میں آئین کو پاؤں تلے روندنے اور بار بار فوجی حکومتوں کے قیام کا ایک منفی سلسلہ شروع ہوا۔پاکستان میں اکثر لوگ مارشل لاء کے نفاذ کو جائز قرار دینے کے لیے دلائل دیتے رہتے ہیں ۔ مگر یہاں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا فوجی حکومتیں ان مسائل کو حل کرسکی جن کو جواز بنا کر انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔

صدارتی انتخابات


یوں تو پاکستان میں ہر مرتبہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد شکست خوردہ جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ مگر 1965 کے صدارتی انتخابات میں جس طرح جنرل ایوب خان کے مقابلے میں حکومت کی زیر سرپرستی فاطمہ جناح کی جیت کو شکست میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کا ذکر سرکاری سکولوں کے نصابی کتب میں بھی موجود ہے۔

آپریشن جبرالٹر

جنرل ایوب خان حکومت نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے ایک فوجی مہم کا منصوبہ بنایا۔ پلان کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کیا گیا۔ جب بھارتی فوج نے یہ محسوس کیا کہ اب وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر میں مقابلہ نہیں کر سکتے تو انہوں نے 6 ستمبر کی رات کو لاہور پر حملہ کر دیا۔ جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور 17 روز تک جاری رہی۔ حسین حقانی کے مطابق اس جنگ سے پہلے دونوں ممالک کے باشندے ایک دوسرے کے ممالک بغیر ویزہ کے سفر کر رہے تھے۔ اس جنگ کی وجہ سے دوستی کی یہ فضا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی۔ اور دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔

انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو

انیس سو ستر میں ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ نتائج کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ (167) نشستیں حاصل کیں، حکومت بنانا ان کا حق تھا۔ لیکن جنرل یحیٰی خان کی فوجی حکومت شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ غلطی کی اوپر دوسری غلطی یہ کر دی گئی کہ جب مشرقی پاکستان میں عوام اپنے حکومت بنانے کے حق لینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں ۔ تو 25 مارچ 1971 کو عوامی لیگ کے کارکنوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا گیا اور یوں حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ نومبر میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا۔ اور 16 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ مشرقی پاکستان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنگلہ دیش بن چکا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل

پاکستان ٹوٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت شروع ہوا۔ مایوسی کے اس عالم میں اس نے اپنی طرف سے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ملک کو متفقہ آئین دینا ، جنگی قیدیوں کی بھارت سے رہائی، اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد، پاکستانیوں کو ملک سے باہر روزگار فراہم کرنا، ایٹمی پروگرام شروع کرنا اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانا ان کے چند اہم کارنامے تھے۔ مگر 5 جولائی 1977 کو ملک میں تیسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ تو چند ماہ بعد ضیاء الحق حکومت نے بھٹو کو گرفتارکر دیا ۔ اور 1979 میں قتل کی سازش کے ایک کیس میں ملک کے اس پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ جسے آج ایک عدالتی قتل قرار دیا جا رہا ہے۔اس قتل کی وجہ سے پاکستان کی سیاست پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ پیپلز پارٹی اب بھٹو خاندان کی جاگیر بن چکی ۔ اور رفتہ رفتہ یہ موروثی سیاست تقریباً تمام جماعتوں تک پھیل گئی۔ اسی طرح ایشوز پر سیاست کے بجائے شہیدوں اور شہادتوں پر سیاست شروع ہوئی۔

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ دوم

2 thoughts on “پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول”

  1. Pingback: جشن آزادی مبارک: پاکستان کی 75 سالہ کامیابیوں پر ایک نظر – Aamir Zaheer

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *