پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ دوم

مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے اقوام آج ہمارے مقابلے میں کئی گنا بہتر معیار زندگی کے ساتھ جی رہے ہیں۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا، دنیا تبدیل ہوتی رہی مگر نہ بدلا تو پاکستانی حکمرانوں کا طرز حکمرانی۔ ہمارے ملک کا سفر وہی سنگین غلطیوں کے ساتھ جاری رہا.

جس سال ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، اسی سال روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور پاکستان نے اسے اپنا جنگ قرار دے دیا۔ جنرل ضیاء حکومت نے جنگ میں حصہ لینے کے دو بڑے وجوہات پیش کیے کہ 

1. یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان اور اسلامی ریاست کے روس کے خلاف جہاد کرنا ہمارے اوپر فرض ہے

2. روس کا اصل ہدف افغانستان نہیں بلکہ گرم پانی یعنی بحیرہ عرب تک پہنچنا ہے

جنرل ضیاء الحق

اب کھلے دماغ سے سوچیں تو کیا 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت یہ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی ۔ جو ہم نے جہاد کے بجائے امریکہ کا ساتھ دیا۔ مندرجہ بالا دوسرے جواز کا جواب سیاستدان اور دانشور افراسیاب خٹک دیتے ہیں کہ ہم نے روس کے سینکڑوں، ہزاروں سرکاری دستاویزات کا مطالعہ کیا ۔ مگر ہم نے گرم پانی تک پہنچنے کی بات کہیں بھی نہیں دیکھی۔

انیس سو اٹھانوے ميں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کے ذریعے دہلی سے لاہور کا سفر کیا اور پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھی موقع سے فایدہ اٹھایا اور دونوں ممالک کے درمیان”دوستی کا معاہدہ” ہوا۔ اگلے سال پاکستانی فوج نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ضلع کارگل پر حملہ کیا۔ جس کی وجہ سے امن کا یہ سفر شروع ہوتے ہی ختم ہوا۔ اس کے بعد دونوں ہمسایے کبھی ایک دوسرے کے نزدیک نہ آسکے۔

وزیراعظم نواز شریف

کارگل جنگ کے چند ماہ بعد 12 اکتوبر 1999 کو بری فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور چوتھی مرتبہ ملک میں فوجی حکومت قائم کی۔ اس دور میں ڈیورنڈ لائن کے پار افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی۔ پوری دنیا میں صرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ امریکہ میں ستمبر 2001  کے دہشت گرد حملوں کے بعد جب دنیا کے اس اکلوتی سپر پاور نے افغانستان پر چڑھائی کی۔ تو پاکستان کے فوجی حکمران نے امریکی وزیر دفاع کولن پاول کے ایک ٹیلی فون کال پر چٹکی بجاتے ہوئے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے دیا۔ اس پرائے جنگ کی وجہ سے پاکستان کا امن ایک طرف تباہ ہوا تو معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان دوسری طرف ہوا۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ تو امریکہ نے پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا۔ اربوں ڈالر کی فوجی و معاشی امداد فراہم کی۔ مگر کچھ عرصہ بعد امریکہ نے پاکستان پر الزام عائد کرنا شروع کیا ۔ کہ پاکستان طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے میں اپنی پسند اور ناپسند سے کام لے کر  ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک مرتبہ خود اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان طالبان کے خلاف کیوں کاروائی کریں جو ہمارے خلاف نہیں ہیں۔ اسی طرح وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک مرتبہ اپنے گھر کی صفائی کی بات کرکے امریکی الزام کو سچ ثابت کیا تھا۔ 2018  کا نیا سال شروع ہوا۔ تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی دن ٹویٹ کیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا۔ کہ ہم نے پچھلے 17 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد امداد فراہم کی۔ لیکن پاکستان نے ہمیں دھوکہ دیا۔

جنرل پرویز مشرف

اسی طرح ہماری بعض غلطیاں ایسی ہیں۔ جسے ہم جس طرح 70 سال پہلے ثواب سمجھ کر سر انجام دے رہے تھے، آج بھی عین اسی طرح اس پر عمل پیرا ہیں۔ مثلاً سیاست میں ارباب اختیار کا ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشیں کرنا، ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا، کرسی کے لیے ہر ناجائز عمل کو اختیار کرنا، گالم گلوج اور ایک دوسرے کے عزتیں اچھالنے پر مبنی انتخابی مہم چلانا ، اپنے فائدے کے لیے قوانین کا دھجیاں اڑانا وغیرہ۔

ہم آج تک ایک ایسا معاشی پالیسی اور پروگرام بھی نہ بنا سکے۔ جن پر قومی قیادت کا اتفاق ہو۔ اور وہ ہماری معیشت کا قبلہ اور منزل متعین کر سکے۔ اگر ہم صرف یہ کام سر انجام دینے میں کامیاب ہو سکے تو بھی پاکستان اگلے دو دہائیوں میں دنیا کے 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

اب جو محب وطن پاکستانی مندرجہ بالا غلطیوں کا ذکر کرتا ہے۔ تو ارباب اختیار حتیٰ کہ عوام کی طرف سے بھی ان پر ملک دشمنی یا غداری کے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو ہماری اصلاح ناممکن ہے۔ ماضی سے سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی گھر (پاکستان) کے خاطر ماضی سے سیکھ کر اپنے مستقبل کو سدھارنا ہے۔

پاکستانی حکومتوں کی تباہ کن غلطیاں، حصہ اول

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *