يہودیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ

مصنف: عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )

یہودی یا بنی اسرائیل کون ہیں

ابراہیم علیہ السلام کو پیغمبروں کا باپ کہا جاتا ہے۔ تینوں آسمانی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے پیروکار انہیں انتہائی قابل احترام مانتے ہیں۔ آپ کے دو بیٹے تھے اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام۔ آپکا پوتا اور اسحاق علیہ السلام کا بیٹا یعقوب علیہ السلام بھی پیغمبر تھا۔ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے اولاد سے بارہ قبائل بنے اور انہیں یعقوب علیہ السلام کے عبرانی نام اسرائیل کی وجہ سے بنی اسرائیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے یہودا کے خاندان اور اولاد کا باقی گیارہ پر غالب آنے کی وجہ سے ان کو یہودی کہا جاتا ہے۔ اب غور کرنے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ نہ تمام یہودی بنی اسرائیل ہیں اور نہ تمام بنی اسرائیل یہودی ہیں مگر آج کل دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متبادل استعمال ہوتے ہیں۔

بنی اسرائیل پر خدا کی نعمتیں

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کو دنیا کی سب سے افضل قوم ذکر فرمایا ہے اور ان پر اپنی نازل کردہ نعمتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے مثلآ کہ یہ لوگ پیغمبروں ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور یوسف علیہما السلام کے اولاد تھے۔ ان کی ہدایت کے لیے ہزاروں پیغمبروں کو بھیجا گیا جن میں میں داؤد، سلیمان، موسی، ہارون، زکریا، یحییٰ اور عیسی علیہما السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی شامل تھے۔ ان کو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے فرعون کی غلامی اور ظلم سے نجات دلائی گئی۔ ان کے لئے آسمان سے من و سلویٰ کا انتظام کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

بنی اسرائیل کی نافرمانیاں

ان بدبختوں نے ہر بار خدا کی نعمتوں کا جواب خدا اور پیغمبر کی نافرمانی کی صورت میں دیا مثلاً کہ ان ظالموں نے پیغمبروں کو بھی قتل کر دیا۔ جب موسی علیہ السلام صرف چالیس دن کے لیے کوہ طور تشریف لے گئے تو ان بنی اسرائیلیوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کی۔ ایک مرتبہ اپنے پیغمبر کو کہنے لگے کہ تو اور تیرا خدا جا کر کافروں کے ساتھ جہاد کرے ہم نہیں جا سکتے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے خدا کی ظاہری نشانیوں کے باوجود عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور انہیں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا وہ الگ بات ہے کہ خدا نے عیسی علیہ السلام کو بچا کر ان لوگوں کا چال ان کے خلاف ہی چلا دیا۔

یہودیوں پر عیسائیوں کے ظلم و ستم

عیسی علیہ السلام کے اس واقعے کے بعد عیسائیوں نے انتقام لینے کی غرض سے یورپ میں یہودیوں کو چن چن کر قتل کر دیا جو لوگ بچ گئے انہیں غلام بنا دیا گیا اور پھر اگلے سترہ صدیوں تک ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ یورپ میں جب بھی کوئی قدرتی آفت نازل ہوتی تو عیسائی ان لوگوں کو ان کا قصوروار قرار دیتے اور انہیں انتہائی سخت سزائیں دی جاتی۔ گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلیبی جنگوں کے دوران جب بھی عیسائی شکست کھاتے تو اپنی شکست کا بدلہ یہودیوں سے ظلم کی صورت میں لے لیتے۔ اس کے مقابلے میں یہ لوگ اسلامی سلطنت کے جس حصے میں بھی رہیں، امن اور خوشی سے رہیں مگر ان لوگوں کو کبھی یہ خوشی راس نہ آئی اور موقع ملتے ہی وہ اسلامی ریاست اور سربراہان کے خلاف سازشیں بناتے۔

یہودیوں نے کب اور کیسے عروج پکڑا

سترہویں صدی سے یورپ اور باقی دنیا میں سیکولرزم، جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام، کمیونزم، اور مساوی انسانی حقوق کے خوش کن نظریات اور تحریکوں کی وجہ سے یہودی پستی اور تنزلی سے رفتہ رفتہ ترقی کی زینوں پر چڑھتے گئے۔ اور اگلے دو صدیوں میں وہ کمال مہارت سے بینکینگ، سونے اور میڈیا کے کاروباری شعبوں پر حاوی ہو چکے۔ 1898 میں سویٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پچاس یہودی تنظیموں کے تین سو بااثر یہودی نمائندوں نے ایک اجلاس میں شرکت کی اور اگلے 50 سالوں کے لئے اپنے مقاصد طے کیے۔ جن میں پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور میڈیا کو بلواسطہ یا بلاواسطہ قابو کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے فلسطین کی مقدس سرزمین پر ملک کا قیام شامل تھا۔

اسرائیل کا قیام

پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا اور اور ان کو معاشی طور پر امداد فراہم کی۔ جس کے بدلے 1917 میں برطانوی وزیرخارجہ نے “بالفور ڈکلیریشن” کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران دوبارہ یہی حربہ استعمال کیا گیا۔ اور یوں اتحادی طاقتوں ( برطانیہ،امریکہ، فرانس اور روس ) نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کی سرزمین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان برابرتقسیم کر کے دو ریاستی حل کا منصوبہ پیش کیا۔ یہودیوں نے تو یہ منصوبہ تسلیم کر کے اسرائیل کو بین الاقوامی برادری سے تسلیم کروایا جبکہ عرب اسے مسترد کرکے آج اپنے حصے کا فلسطین بھی اسرائیل کے ہاتھوں کھوچکے ہیں۔

یہودی اور اسلام، یہودیوں کی تاریخ کا دوسرا حصہ

عرب اسرائیل جنگوں کی تاریخ، کس نے کیا کھویا کیا پایا

3 thoughts on “يہودیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ”

  1. Pingback: عرب اسرائیل جنگوں کی تاریخ، کس نے کیا کھویا کیا پایا – Aamir Zaheer

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *