مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
جنرل ضیاءالحق کی گیارہ سالہ آمریت کا دور ان کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ چونکہ جنرل صاحب اپنے وفات سے پہلے جونیجو حکومت کو برطرف کر چکے تھے اس لیے اگلی حکومت بنانے کے لیے 1988 میں ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن چکی۔
1988 سے 1999 تک چار حکومتیں تبدیل ہوئیں جن میں دو مرتبہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم رہی تو دو مرتبہ نواز شریف۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے ایسا لگ رہا تھا جیسا کہ پاکستان میں دو جماعتی نظام لاگو ہو۔ دونوں جماعتوں میں ایک حکومت میں ہوتی تو دوسری اپوزیشن میں۔ اپوزیشن والی جماعت کی کوشش ہوتی کہ حکومت کو جلد از جلد گرایا جائے۔ یوں یہ پوری دہائی ان دو بڑی پارٹیوں کی منفی سیاست کی نذر ہوئی، جس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس لئے بعد میں اس دہائی کو “ضائع شدہ دہائی” کا نام دے دیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت 1988-90
بے نظیر بھٹو کی وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہونے کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ مغربی ممالک میں بی بی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سابق بیوروکریٹ اور اس وقت کے چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان کو صدرِ پاکستان منتخب کرنے پر متفق ہوئیں اور یوں بنوں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے غلام اسحاق خان اگلے پانچ سال کے لیے ملک کے صدر بنے۔
اگلے سال اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس کے دوران بے نظیر بھٹو اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان ایک دوسرے سے ایٹمی اثاثوں کی تفصیلات شیئر کرنے اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا۔ دونوں ممالک سیاچین مسئلہ کو حل کرنے پر بھی راضی ہوئے مگر یہ معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دوسری طرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی مسلح تحریک شروع ہوئی تو بھارتی حکومت نے اسے پاکستان کا پراکسی وار قرار دے دیا۔

اسی زمانے میں نواز شریف پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے آنکھوں کا تارا تھا۔ جبکہ بینظیر بھٹو اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کی وجہ سے مقتدر ادارے کے لیے ناقابل قبول تھی۔ یوں بہت جلد وزیراعظم دفتر کی ایوان صدر اور اسٹبلشمنٹ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صرف بیس ماہ بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر چلتا کر دیا گیا۔
نواز شریف کا پہلا دور حکومت 1990-93
انیس سو نوے کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے بنائے گئے الائنس نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ چونکہ اتحاد کی سربراہی نواز شریف کے ہاتھوں میں تھی اس لیے وہ پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف حکومت کے اہم کارنامے مندرجہ ذیل ہیں۔
آپ نے قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جن کا کام ایک فارمولے کے مطابق مرکز اور صوبوں کے درمیان آمدنی کی تقسیم تھی۔
اسی طرح انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے نام سے ایک دوسرا ادارہ قائم کیا گیا، جن کی بنیادی ذمہ داری چاروں صوبوں کے درمیان آبپاشی کیلئے دریائی پانی کی تقسیم تھا۔
انیس سو اکانوے میں نجکاری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ملک میں پرائیویٹائزیشن کا آغاز کیا اور کئی سرکاری ادارے نجی شعبہ کے ہاتھوں فروخت کئے گئے۔
1992 میں لاہور اور اسلام آباد کے درمیان ملک کے پہلے موٹروے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے خود روزگار اسکیم کا افتتاح کیا گیا۔ جن کے تحت عوام کو آسان اقساط پر ٹیکسی کار اور رکشے فراہم کیے گئے۔ ان اقدامات سے ملکی معیشت پٹڑی پر چڑھ گئی مگر ایک مرتبہ پھر سیاسی عدم استحکام آڑے آیا اور 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔ نواز شریف نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تو سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کرائی۔ نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے مگر آرمی چیف نے صدر اور وزیر اعظم کے اختلافات کو ختم کرنے کا یہ راستہ نکال دیا کہ صدر اسمبلی توڑ کر خود بھی استعفی دے گا اور یوں نئے انتخابات کے لیے راستہ ہموار کردیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت 1993-96
1993 کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی اور بی بی دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی۔ اب بے نظیر بھٹو کو احساس ہو چکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مک مکا نہیں کرنا چاہیے۔ اب کی بار بی بی کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ بری فوج کے سربراہ وحید احمد کاکڑ سیاست میں مداخلت کے قائل نہیں تھے۔ بی بی ایوان صدر میں جیالے کو بٹھانے میں بھی کامیاب ہوئی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے فاروق احمد خان لغاری ملک کے صدر منتخب ہوئے۔
بے نظیر بھٹو ایک بڑی رہنما ہونے کے باوجود بھی ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ثابت نہ ہو سکی۔ معاشی حالت مزید ابتر ہو چکی۔ ان کی کابینہ میں شامل ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے، مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا اور ان حالات کو جواز بنا کر 1996 میں بھٹو حکومت کو اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان فاروق لغاری نے برطرف کردیا۔
نواز شریف کا دوسرا دور حکومت 1997-99
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی پارٹی نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ یہی جماعت مسلم لیگ نون تھی جن کے سربراہ میاں نواز شریف 1997 میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنے۔
اسلام آباد لاہور موٹروے کو ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔
اگلے سال مئی کے تیرہ تاریخ کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے۔ پاکستان کے پاس دو راستے تھے کہ دھماکے کرکے حساب پورا کرے مگر ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لیے پاکستان پر بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ و یورپ کی طرف سے معاشی پابندیوں کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ پاکستان معاشی پابندیوں سے بچنے کی خاطر بھارتی اجارہ داری تسلیم کرے اور اس راستے کو اختیار کرنے کے لیے پاکستانی قوم بالکل تیار نہیں تھی۔ وزیراعظم نواز شریف نے چین، سعودی عرب، ایران، ترکی اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ مشورہ کرکے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا۔
سرحد پار بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ایک قابل اور دوراندیش شخص تھے۔ اس نے بس کے ذریعے پاکستان کا دورہ کرکے حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ دونوں ممالک کے درمیان لاہور میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے اور دنیا نے سکھ کا سانس لے لیا۔
نواز شریف نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت سینئر جنرلز کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو اس طاقتور ترین عہدے کے لیے پسند کیا۔ مشرف نے جولائی 1999 میں اپنے وزیراعظم کی اجازت کے بغیر بھارتی کشمیر کے ضلع کارگل پر حملہ کر دیا اور جب پاکستان جنگ میں پھنس چکا تو پھر وزیراعظم کو جنگ بندی کروانے کے لیے امریکہ کی منت کرنی پڑی۔ یوں پاکستان کو بے فائدہ دنیا میں بدنام کرایا گیا۔
وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان اختلافات کا نتیجہ قومی اسمبلی کے اندر دو تہائی اکثریت کے اعتماد کے حامل وزیراعظم کو جیل بھیجنے کی صورت میں نکلا۔ 12 اکتوبر 1999 کو ملک میں چوتھی مرتبہ فوجی حکومت قائم ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف کے پورے خاندان اور قریبی دوست سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اگلے آٹھ نو سالوں تک جنرل پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ان کی حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ اگلے بلاگ میں کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف، وہ پارٹی جس نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا
کیا افغان/پختون نسلاً بنی اسرائیل ہیں
تاريخ پاکستان : کیا واقعی جنرل ایوب خان ملک کے سب سے اہل حکمران تھے
Best blog ❣️
💕💖
Sir bs d pak leadership na ensan zra morh shi🤐🤐
ها ها ، او کنه بلکل
Good luck 1👏👏👏
Informative and interesting