مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
ہمارا ذہن ہمارے پورے جسم اور جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مائنڈ سیٹ سے اہم کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہماری پوری علم اور سمجھ کی بنیاد ہماری یاداشت ہوتی ہے ۔ اگر یاداشت چلی جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر الٹی کون کرتا ہے وہی جس نے بچپن میں گاڑی میں الٹی کی ہو اور اس کے ذہن میں اب گاڑی میں سفر اور الٹیاں کرنا لازم و ملزوم بن چکے ہوتے ہیں ۔ اس طرح اگر ہمیں واش روم جانے کی ضرورت نہ بھی ہو لیکن ہمارے ذہن میں اگر دو تین مرتبہ ایسا خیال آئے تو ہم فوری طور پر واش روم جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
نظریہ کشش
مندرجہ بالا پیراگراف سے ہمیں ذہن اور جسم کا تعلق معلوم ہوتا ہے لیکن نظریہ کشش اس سے بھی ایک قدم آگے ہے۔ اس نظریہ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ آپ جو بھی تصور کرتے ہیں اسی طرح ہی ہوتا ہے ۔ یہ لوگ سوچ کی طاقت پر ایمان رکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اس سے آپ اپنی زندگی مکمل طور پر تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ کی زندگی آپ کے کنٹرول میں آ جاتی ہے ۔
ایک حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے کیونکہ ہم اگر مثبت سوچتے ہیں تو پرسکون رہتے ہیں اور منفی خیالات سے ہم اپنی زندگی کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
اس نظریہ کے مطابق ہماری سوچ و خیالوں کی ایک فریکوئنسی ہوتی ہے جو اپنی جیسی فریکوئنسی کو تلاش کرتی ہے ۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اس فریکوئنسی کو کس طرح سیٹ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ جن لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں اس طرح بن جاتے ہیں یا آپ جیسے ہوتے ہیں تو اس طرح کے لوگ آپ کے دوست بن جاتے ہیں۔
کیا یہ نظریہ ٹھیک ہے ؟
اس نظریہ کے تین مراحل ہوتے ہیں پہلا مرحلہ “مانگنا” ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کو تصور کرتے رہیے مثال کے طور پر اگر آپ کو گھر، گاڑی یا روزگار درکار ہے تو اسے اپنے خیالات کا محور بنا لیں۔ دوسرا مرحلہ “یقین” کا ہے کہ آپ کے دل میں اس چیز کے ملنے کی یقین ہونی چاہیے اور تیسرا مرحلہ “ملنا” ہے کہ آپ کو وہ چیز ملے گی جن کو آپ تصور کرتے ہیں۔ یہ نظریہ ٹھیک ہے یا غلط، کام کرتا ہے یا نہیں، محبت کے نظریہ کو سمجھ کر سب واضح ہو جائے گا ۔

نظریہ محبت
محبت کی حالت توانائی کی اعلیٰ قسم کی فریکوئنسی ہے ۔ محبت زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ کامیاب لوگ اپنے آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں، دوسروں کے ساتھ محبت کرتے ہیں، دوسروں کی مدد کے لیے ہر وقت حاضر ہوتے ہیں، خیر بانٹنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
پچھلے نظریے کے برعکس اس نظریہ کے چار مرحلے ہوتے ہیں۔
مانگنا
ہم اس چیز کو مانگتے ہیں جو ہماری خواہش ہوتی ہے ۔ تو کئی مرتبہ لوگ ایسی چیزیں بھی مانگتے ہیں جو ہمارے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ کو مزید مانگنے کے بجائے مزید سیکھنے اور محنت کرنے سے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر بنانا چاہیے ۔ یعنی کہ یہ نظریہ پانے کے بجائے کرنے سے متعلق ہے۔
یقین
نظریہ کشش میں یہ بات شامل ہے کہ آپ یقین رکھیں کہ جو آپ مانگتے ہیں وہ ملے گا۔ یہاں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ مثال کے طور پر ایک کمپنی میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں ہیں تو پروموشن دیتے وقت کمپنی کی سی ای او کس افسر کو ترقی دے گا جو مانگتا ہے یا جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر ترقی پانے کا اہل ہو۔ اپنی محنت پر یقین رکھیں ۔
کام
کامیاب لوگ اپنی زندگی کا مقصد مقرر کرتے ہیں، اپنی ترجیحات و اہداف کو اس مقصد کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہی اس کا عقیدہ بن جاتا ہے، اس سے ان کو توانائی ملتی ہے اور وہ مزید کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ باچا خان کی مثال لے لیں کہ عدم تشدد یا خدمت کا جذبہ ان کا عقیدہ بن چکا تھا تو وہ ایک عظیم لیڈر کے طور پر جیے اور مرے ۔

قبولیت
جب آپ ایک صحیح کام کرتے ہیں، اپنے آپ کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اہل بناتے ہیں، اپنی زندگی کے مقصد اور اہداف کو عقیدہ کی شکل میں فالو کرتے ہیں۔ تو پھر یہ چوتھا مرحلہ آتا ہے جس میں آپ کو اپنے اعمال کا نتیجہ ملتا ہے یہ نتیجہ اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی ۔ نظریہ محبت ہمیں اس نتیجے کو قبول کرنے اور سفر رکوانے کے بجائے مزید آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے ۔
خلاصہ
دونوں نظریات کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ دونوں کا موازنہ کرکے فیصلہ کریں کہ اس میں کون سا نظریہ ٹھیک ہے اور کون سا نظریہ غلط۔
نظریہ کشش کو ہم مکمل طور پر رد نہیں کر سکتے کیونکہ سوچ کی طاقت تسلیم شدہ ہے ۔ لیکن سوچ سے ہم ہر چیز کو حاصل کر سکتے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس کے مقابلے میں نظریہ محبت عمل پر زیادہ فوکس کرتا ہے اور یہ نظریہ دوسرے کے مقابلے میں میں زیادہ موزوں ثابت ہوتا ہے۔
ذہانت کے اقسام
پاک افغان تعلقات ، اچھے دن برے دن
روح، دل اور نفس کی حقیقت
👍