مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار بیسویں صدی کے برصغیر کے چوٹی کے مصنفین میں ہوتا ہے۔ آپ صرف ایک شاعر اور مصنف نہیں بلکہ ایک ممتاز مذہبی عالم اور ایک کامیاب سیاستدان بھی تھے۔ گاندھی جی اور جواہر لال نہرو جیسے لوگ آپ کے عقل و دانش کے معترف تھے۔ جواہر لال نہرو نے ایک مرتبہ کہا کہ میں جب بھی مولانا صاحب کے ساتھ ملتا ہوں تو ان کے سامنے میرا کل سیاسی تجربہ اور علم صفر بن جاتا ہے۔ آپ اپنی کتاب میں اپنی تعارف میں لکھتے ہیں کہ
کئی صدی پہلے میرے آباؤاجداد ہرات (افغانستان) سے ہجرت کر کے ہندوستان میں پہلے آگرہ اور پھر دہلی میں آباد ہوئے۔ یہ ایک علمی خاندان تھا جو شاہ جہاں کے دور میں سیاست میں بھی ترقی کر گیا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد میرے والد مکہ مکرمہ شفٹ ہوئے جہاں 1888 میں میری پیدائش ہوئی۔ دو سال بعد ہم واپس ہندوستان لوٹے۔ طالب علمی کے زمانے میں سرسید احمد خان کو پڑھا۔ ان سے متاثر ہو کر ترقی پسند بن گیا، انگریزی زبان بھی سیکھ لیں اور قدامت پسند خاندان کا پہلا جدت پسند شخص بن چکا۔
آپ 1923 میں پینتیس برس کی عمر میں ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے صدر بن چکے تھے اور 1939 سے 1946 تک مسلسل سات سال تک کانگریس کے صدر رہیں۔ آزادی کے بعد آپ بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم بن چکے یوں بھارت کی موجودہ تعلیمی حیثیت اور ترقی میں آپ کا ایک بڑا اور بنیادی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے آج بھارت کے طول و عرض میں کئی ممتاز تعلیمی ادارے آپ کے نام پر قائم ہیں ۔
مولانا صاحب کی تصانیف اور ہمارے سکولوں کالجوں میں پڑھائے جانے والے مطالعہ پاکستان کے کورس میں کئی تضادات ہیں۔ آج مولانا صاحب کی ہندوستان کی تحریک آزادی، تقسیم ہند، قیام پاکستان اور پاکستان کے بارے میں کچھ خیالات کا جائزہ لیں گے۔

تقسیم بنگال 1905
مطالعہ پاکستان میں اس واقعے کو یوں ذکر کیا گیا ہے کہ بنگال ایک بہت بڑا صوبہ تھا ۔ انگریزوں کے لئے اتنے بڑے صوبے کا انتظام چلانا مشکل تھا اس لیے اسے دو صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا صوبہ مل چکا ۔ ہندوؤں اور کانگریس نے اس تقسیم کی مخالفت کی۔ جبکہ مولانا صاحب کے بیان کے مطابق دراصل بنگال میں انقلابیوں کی طرف سے آزادی کی تحریک شروع کی گئی ۔ کانگریس نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی ۔ انگریزوں نے انقلابیوں اور کانگریس کی طاقت کو کم کرنے کے لیے مسلمانوں کے اعتماد لینے کی خاطر یہ ڈراما رچایا ۔
مسلم لیگ
مولانا صاحب مسلم لیگی رہنماؤں کو انگریزوں کے وفادار ٹولے کا نام دیتے ہیں جن کا کام انگریزی حکومت کو ہندوستان کے انتظام چلانے کے لیے مدد فراہم کرنا تھا ۔ مسلم لیگ کے منشور میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا نقطہ شامل ہی نہیں تھا ۔
تحریک خلافت
تحریک خلافت کے دوران گاندھی اور کانگریس نے انگریز سرکار کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع کی تو محمد علی جناح نے کانگریس سے اختلاف کر کے احتجاجاً پارٹی سے استعفی دے دیا۔ یاد رہے کہ قائداعظم تحریک خلافت سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہے تھے ۔
کانگریسی حکومتیں
مولانا صاحب کے مطابق 1937 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے کانگرس نے آٹھ صوبوں میں حکومت قائم کی تھی مگر کہیں بھی مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کیا گیا تھا۔ مسلمانوں پر ظلم وزیادتی مکمل طور پر ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔

بنگال میں مسلمانوں کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ مقرر نہ کرنا
مولانا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مسٹر داس بنگال کے وزیر اعلی تھے۔ وہ ایک انتہائی قابل اور سمجھدار کانگرسی لیڈر تھے۔ بنگال میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا پچاس فیصد تھی لیکن سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو صرف 30 فیصد نمائندگی حاصل تھی۔ مسٹر داس نے کانگریس کے سامنے مسلمانوں کے لئے ملازمتوں میں 60 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کا منصوبہ پیش کیا بدقسمتی سے مسٹر داس کا انتقال ہوچکا اور کانگریس نے اس منصوبے کو پس پشت ڈال دیا۔ یہاں تقسیم ہندوستان کا پہلا بیج بویا گیا۔
گاندھی جناح مذاکرات 1944
مولانا صاحب ان مذاکرات کے سخت مخالف تھے آپ کے مطابق گاندھی جی نے محمد علی جناح کے ساتھ مذاکرات کرکے ایک بڑی غلطی کی تھی کیونکہ جناح کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ ان کو اتنی اہمیت دی جائے۔
کابینہ مشن 1946
وائسرائے ہند لارڈ ویول تقسیم کے مخالف تھے۔ 1946 میں کابینہ مشن ہندوستان آیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کے سامنے صوبائی خودمختاری کا سکیم پیش کیا جبکہ جناح صاحب نے تقسیم ہند کا منصوبہ سامنے رکھا، مولانا صاحب کا سکیم منظور کیا گیا۔ آگے آپ لکھتے ہیں کہ جواہر لال نہرو کی غلطی کی وجہ سے ( کہ اس نے دلی میں تقریر کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس کابینہ مشن پلان کی کسی بھی نقطے کو تبدیل کر سکتی ہے) نے سارے کیے پر پانی پھیر دیا۔ یوں مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کی منظوری واپس لے لی۔

اور پھر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو تقسیم کے منصوبے کے ساتھ وائسرائے بنا کر لندن سے بھیجا گیا۔ تقسیم کے منصوبے پر ہندو قوم پرست لیڈر سردار پٹیل سب سے پہلے راضی ہوئے۔ جواہر لال نہرو کو ماؤنٹ بیٹن کی بیوی نے اس منصوبے پر راضی کیا۔ تقسیم کی مخالفت میں میرا آخری آسرا گاندھی جی تھے۔ جو ان کانگریسی رہنماؤں، مسلم لیگ اور انگریز سرکار کی رضامندی کو دیکھ کر آخر میں تقسیم کی منظوری دے چکے۔
مولانا صاحب تقسیم ہند کی مخالفت میں اپنے دلائل کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ
پورا ہندوستان مسلمانوں کا ہے مسلمان کیوں ہندوستان کے ایک حصے میں محدود ہو کر باقی ملک کو چھوڑیں۔
قیام پاکستان سے بھارت کے مسلمان کمزور ہو جائیں گے۔ دونوں ممالک کے مسلمان ایک دوسرے کی کچھ مدد نہیں کر سکیں گے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اچھے ہمسائے نہ بن سکیں گے بلکہ پاکستان کی دیگر ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بھی ٹھیک نہیں رہیں گے۔
پاکستان کا مطلب ہے پاک سرزمین۔ اسلام میں پاک اور ناپاک زمین کا کوئی تصور موجود نہیں، یہ تو برہمنوں کی باتیں ہیں ۔
پاکستان کے بارے میں پیشنگوئیاں
مولانا صاحب نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کئی پیشنگوئیاں کی ہیں جو حیران کن طور پر صحیح ثابت ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر کہ
پاکستان میں نااہل لوگ حکومت کریں گے، اس ملک میں اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہوگی، یہ ملک زیادہ تر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گا، یہاں فوج حکومتیں کریں گی، یہ ملک جلد یا بدیر دو لخت ہو جائے گا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خیالات کا جائزہ لینے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آپ دراصل مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ تھے اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ برصغیر کی تقسیم کی صورت میں مسلمانوں کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہو چکا ہے۔ متحدہ ہندوستان کی شکل میں مسلمانوں کا فائدہ زیادہ تھا۔
اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟
پاکستانی معیشت کس حال میں ہے، اعداد و شمار کے آئینے میں
پاک بھارت جنگوں کی تاریخ: حملے کس نے کیے، جنگ کس نے جیتیں؟
Hence we understand from the blog the reality of Humanity and fact❣️
Keep it up sir G this help us what is reality and what we teaching and reading today.
Help to solve the contradictions
Molana saab The Great… 💚💖
Informative Sir ❤️❤️❤️❤️
❤