مودی حکومت میں بھارتی مسلمانوں کا حال، مکمل مضمون

مصنف : عامر ظهير (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

2020 کے اندازے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ 70 لاکھ ہے جو انڈونیشیا کے 23.1 کروڑ اور پاکستان کے 21.4 کروڑ کے بعد تیسری بڑی مسلم آبادی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں میں بھارتی مسلمان گیارہ فیصد جبکہ بھارت کے اندر ٹوٹل آبادی میں 15 فیصد بنتے ہیں۔ بھارت سب سے بڑا مسلم اقلیت والا ملک ہے۔ اگر 1947 میں تقسیم ہند اور 1971 میں پاکستان دولخت نہ ہوتا تو آج متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 55 سے 60 کروڑ کے درمیان ہوتی۔ اگر چہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان پھر بھی اقلیت ہی ہوتے مگر ہندوستان میں بی جے پی جیسے انتہا پسند جماعتوں کی حکومت میں آنا ناممکن کے قریب ہوتا۔ آج برصغیر کے مسلمانوں کا تین ممالک میں تقسیم ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمان کمزور پڑ چکے ہیں اور بھارت میں ان کا جینا محال ہو چکا ہے۔

برصغیر میں اسلام کی آمد

آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں محمد بن قاسم کی قیادت میں عرب مسلمانوں کے لشکر نے سندھ پر حملہ کیا۔ سندھ کے حکمران راجہ داہر کو جنگ میں مارا گیا اور سندھ سے ملتان تک کا علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل کر دیا گیا۔ 998 سے 1030 تک مسلم افغانستان کی جانب سے محمود غزنوی کے سترہ حملوں نے ہندوؤں کو مزید شکستوں سے دوچار کر دیا اور 1192 میں افغان بادشاہ شہاب الدین غوری نے دلی کو فتح کیا تو ہندوؤں کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ ان فاتحین اور ان کے ساتھ آنے والے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی دعوت و تبلیغ، مسلمانوں کے اچھے اخلاق و اعمال اور اسلام کی انصاف و مساوات پر مبنی نظام نے ذات پات میں تقسیم ہندوؤں کو بے حد متاثر کیا اور وہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ 1192 سے 1857 تک مختلف مسلمان خاندانوں (بیشتر ترک و افغان) نے ہندوستان پر حکومت کیں۔ غیر جانبدار مورخین کے مطابق بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چند ایک بادشاہ کے علاوہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ ہندوؤں کو عزت دیں اور کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔

محمد بن قاسم

سیکولر بھارت

بھارت کی انگریزوں سے آزادی کے بعد جواہر لال نہرو ملک کے وزیراعظم بنے۔ نہرو کی قیادت میں ملک کا آئین بنایا گیا تو ان کی رو سے بھارت کو سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا کہ اس ملک میں تمام اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہوں گے اور اکثریت و اقلیت کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ مگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں درپردہ بھارت کو ہندوؤں کا ملک قرار دینے کے اپنے ایجنڈے پر گامزن رہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے برصغیر کے عظیم رہنما اور ملک کے بانی گاندھی جی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے آزادی کے بعد فسادات کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی، مسلمانوں کو ان کے گھروں اور مسجد قبضے میں دیے جانے کی بات کی اور پاکستان کو اثاثوں کی تقسیم میں اپنا برابر حصہ دینے کے لیے آواز بلند کی۔

ہندو انتہا پسند کیا چاہتے ہیں

انگریز دور میں قائم شدھی اور سنگھٹن تنظیمیں ہو یا آج کے آر ایس ایس، بی جے پی اور شیوسینا، سب کا موقف ایک ہی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے دیگر تمام مذاہب کے پیروکار ہندو بن جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں۔

مودی حکومت میں مسلمانوں کا حال

نہرو کا سیکولر بھارت جیسا بھی تھا مسلمانوں اؤر دیگر اقلیتوں کے لئے امن کا گہوارہ تھا اور وہ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کر رہے تھے۔ 2014 میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد سے بھارتی سیکولرازم کا بوریا بستر لپیٹنے کا کام انتہائی تندہی سے جاری ہے۔ نریندرا مودی وہی شخص ہے کہ انکی گجرات کے وزارت اعلی کے دور میں 2002 میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ انکی دور حکومت میں پچھلے آٹھ سالوں سے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی

لو جھاد

بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے مسلمان نوجوانوں پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ سادہ لوح ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر اپنے عشق کے دام میں گرفتار کرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان شادیاں عام ہوچکی ہیں۔ اس الزام کے تحت سینکڑوں مسلمان نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ اور ثقافت پر یلغار

ایک منصوبہ بندی کے تحت تاریخ کو از سر نو لکھا جا رہا ہے جس میں ہندوستان کے تمام مسلم حکمرانوں کو حملہ آور، ڈاکو اور ظالموں جبکہ ہندوؤں کے بادشاہوں اور راجاؤں کو انصاف پسند اور نیک دل حکمرانوں کی روپ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں اور رہنماؤں کے نام پر آباد شہروں یا سڑکوں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں الہ آباد شہر کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی مساجد پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ مندروں کی زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت اور اب ان کی جگہ مندر کی تعمیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی پہچان تاج محل کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر گائے کو ذبح کرنے کی پابندی لگ چکی ہے اور کئی مقامات پر ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کو گوشت کھانے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکتیں اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ قتل عام پولیس کے نظروں کے نیچے سرانجام دیے جا رہے ہیں اور الٹا مقتول مسلمانوں کے خاندانوں سے افراد گرفتار کیے جاتے ہیں۔

بی جے پی حکومت کے مسلم مخالف فیصلے

مودی حکومت نے 2019 میں آسام اور بنگال میں 19 لاکھ بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کی بھارتی شہریت ختم کر دی۔ یہ مسلمان 1971 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے سے یہاں آباد تھے۔ اسی طرح آئین میں ترمیم کر کے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی اور وہاں مسلمانوں کو حاصل تحفظ کو ختم کر دیا گیا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت 1947 میں بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت راجہ ہری سنگھ کی حکومت اور بھارتی حکومت کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھا جن کے مطابق بھارت کے لوگ کشمیر میں ملازمت نہیں کر سکتے، جائیداد نہیں خرید سکتے اور نہ مستقل سکونت اختیار کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اس شق کا فائدہ کشمیری مسلمانوں کو ہو رہا تھا جو اب ختم کردیا گیا۔

2020 میں بھارت میں کورونا کی وبا پھیلی تو دلّی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو اس کا قصوروار قرار دے دیا گیا جبکہ دوسری طرف کرونا وبا کے دوران ملکی و غیر ملکی تنظیموں کے منع کرنے کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں ہندو کمبھ میلے میں جمع ہوئے تھے۔

تبلیغی جماعت کے ارکان

دلی کا جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی تو نشانے پر ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیکولرزم کے علمبردار جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے خلاف صرف اس وجہ سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس کے اساتذہ وطلباء اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دینے کی بات کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی حکومت میں نمائندگی صفر ہو چکی ہے

آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت میں کوئی مسلمان شامل نہیں ہے یعنی کہ مرکزی کابینہ میں کوئی مسلمان رکن شامل نہیں۔ بی جے پی کے لوک سبھا (پارلیمان کے ایوان زیریں) کے 301، راجیہ سبھا (پارلیمان کے ایوان بالا) کے 95، اور صوبائی اسمبلیوں کے 1379 نشستوں میں سے ایک پر بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ تقریبا 13 ریاستوں میں بی جے پی کے حکومتیں قائم ہیں اور کسی بھی صوبائی حکومت میں مسلمانوں کو وزیر کا عہدہ نہیں دے دیا گیا ہے۔

ہیٹ کرائمز کیسز (نفرت پر مبنی مقدمات) میں 86 فیصد میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہیں۔

انتہا پسندی کی انتہا

ہندو انتہا پسندوں کے اندر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بی جے پی رہنما نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں کو 20 لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی دعوت دے دی اور کہا کہ بیس لاکھ مارنے سے باقی مسلمان خود بخود ہندو راشٹر کو قبول کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی ڈبلیو کے ایک رپورٹ کے مطابق کسی قوم یا گروہ کی نسل کشی کے دس درجے ہوتے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے آٹھ درجے پورے ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں دو بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی کی گئی۔

میڈیا کہاں کھڑا ہے

نفرت کے کے اس کھیل میں گنتی کے چند دانشوروں اور صحافیوں کو چھوڑ کر تمام میڈیا ادارے اور چینل مکمل طور پر ہندوتوا کے راستے کے شریک مسافر ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حق میں بات کرنے والے کو غدار کہا جاتا ہے۔ ملک سے وفاداری کے لئے مودی حکومت کے ہندو راشٹر کے قیام کی حمایت کرنا شرط ہے۔

عالم اسلام کی طرف سے ردعمل

کرونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے کارکنان کو قصور وار ٹھہرایا گیا تو اس اجتماع میں انڈونیشی مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے انڈونیشیا کی حکومت نے بھارت سے سخت احتجاج کیا تھا۔ مرکزی وزیر امیت شاہ کی طرف سے بنگلہ دیشیوں کو گھس بیٹھیے اور کھوکھلا کر دینے والی دیمک قرار دے دیا گیا تو بنگلہ دیش حکومت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اور جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی تو بھارت کے دوست عرب ممالک کے حکمرانوں نے بھی مودی حکومت پر دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں ان دو رہنماؤں نے معافی مانگ لی اور ان کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی۔ اصلی بات یہ ہے کہ بھارت اپنی بڑی آبادی سیاسی اور معاشی طاقت کی وجہ سے اب دنیا میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک بھی احتجاج ریکارڈ کرنے سے آگے نہیں جانا چاہتے۔ آگے صرف دو راستے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا جائے اور اسلام کے حکمران اپنی تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کریں یا معاشی مفادات کی قربانی دے کر بھارت کو انتہا پسندی کا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں۔

3 thoughts on “مودی حکومت میں بھارتی مسلمانوں کا حال، مکمل مضمون”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *