مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )
آج کے دور میں ایک تعلیم یافتہ شخص کے لئے معیشت کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کرنا لازم ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک شخص کی معاشی زندگی قومی معیشت سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ ویسے بھی امام غزالی نے ایک ہزار سال قبل فرمایا تھا کہ بےشک آپ ایک یا دو مضامین کے ماہر ہو مگر آپ کے پاس دیگر مضامین کے بارے میں بنیادی علم بھی ہونی چاہیے۔ میرے خیال کے مطابق تو علم سیاسیات (پولیٹکل سائنس) اور معاشیات (اکنامکس) کو ہائی اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنا چاہئے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیم یافتہ لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ ایک ملک کا معاشی نظام کیسے بنا ہوتا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔ ہم ہر روز جی ڈی پی، فی کس آمدنی، قوت خرید، آمدن کے لحاظ سے معاشی طبقات، بجٹ، تجارتی خسارہ، بیرونی سرمایہ کاری، زرمبادلہ کے ذخائر، سٹیٹ بینک، قومی خزانہ، دیوالیہ وغیرہ جیسے الفاظ سنتے رہتے ہیں لیکن 95 فیصد لوگ ان الفاظ کی مفہوم تک نہیں جانتے۔
جی ڈی پی، اس کے شعبے اور اقسام
جب بھی ہم معیشت کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے سامنے جو سب سے پہلا لفظ آتا ہے وہ “جی ڈی پی” ہوتا ہے۔ جی ڈی پی انگریزی الفاظ Gross Domestic Products کا مخفف ہے اور ان سے مراد کسی بھی ملک میں ایک سال کے دوران تمام پیداوار کا مجموعہ ہوتا ہے، یعنی کہ ٹوٹل سالانہ کمائی۔
جی ڈی پی کو بنیادی طور پر تین شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ شعبے زراعت، صنعت اور خدمات ہیں۔ زراعت اور صنعت کو تو ہم سب جانتے ہیں لیکن خدمات کا شعبہ کونسا شعبہ ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ ہم بازار میں پیسے دے کر زرعی پیداوار (فصلیں، سبزیاں، پھل) یا صنعتی مصنوعات (کپڑے، کاغذ، چینی وغیرہ) خریدتے ہیں مگر ٹرانسپورٹ، بینک، تعلیم، صحت اور تعمیرات کے شعبوں میں ہم پیسے دے کر کوئی چیز خریدتے نہیں بلکہ بدلے میں ہمیں اسکول میں بچوں کی تعلیم، ہسپتال میں علاج، بس یا ٹرین میں سفر، کاریگروں کی جانب سے گھر کی تعمیر اور بینکوں کی طرف سے اکاؤنٹ کھولنے جیسے سہولیات ملتے ہیں یہی شعبہ “خدمات کا شعبہ” کہلاتا ہے۔

جی ڈی پی کے دو بڑے اقسام ہوتے ہیں۔ پہلے کو انگریزی میں GDP Nominal کہا جاتا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے جبکہ جی ڈی پی کا دوسرا قسم GDP Purchasing Power Parity کہلاتا ہے، اردو میں اس کا مطلب ہے “قوت خرید کے لحاظ سے جی ڈی پی” یعنی کہ کسی ملک کے اندر جتنے بھی لوگ آباد ہوتے ہیں ان کی سالانہ آمدنی کو اکٹھا کر کے ان پر جتنی خریداری کی جا سکتی ہے۔
ترقی کی شرح
ترقی کی شرح یا معاشی شرح نمو سے مراد یہ ہے کہ معاشی ترقی کا پہیہ کس رفتار میں چل رہا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے ترقی کی شرح سات فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اگر بیس سال تک پاکستان سات فیصد کی شرح سے ترقی کرے تو بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ زندگی کا اوسطاً سالانہ ترقی کی شرح چار سے پانچ فیصد کے درمیان ہے۔
فی کس آمدنی
کسی بھی ملک کی جی ڈی پی کو جب ملک کی ٹوٹل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو جواب میں آنے والے ہندسے کو فی کس آمدنی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے غریب ممالک بھی ہیں جہاں فی کس آمدنی 500 ڈالر سے کم ہے جبکہ دوسری طرف انتہائی مال دار ممالک میں فی کس آمدنی 60 ہزار ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔
مہنگائی
مہنگائی اتنی بری چیز نہیں جتنا کہ ہمارے ذہنوں میں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ملک میں مہنگائی کی شرح صفر فیصد ہے تو اس کا مطلب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈیمانڈ میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ڈیمانڈ میں اضافہ نہ ہونا قوت خرید میں کمی کا اشارہ ہوتا ہے اور یہ معیشت کے لیے بالکل بھی ایک اچھی خبر نہیں۔
مہنگائی کے بڑے وجوہات ڈیمانڈ میں اضافہ، سپلائی میں کمی (پیداوار میں کمی یا سپلائی چین میں خلل)، حکومتی پالیسیوں کی ناکامی، بین الاقوامی منڈی میں چیزوں خصوصاََ توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ اور صنعتی و کاروباری حلقوں کی جانب سے اپنے فائدے کے لیے اٹھائے گئے منفی اقدام ہوتے ہیں ۔
ہر ملک کی معاشی حیثیت کی حساب سے اس ملک کی عوام میں مہنگائی کے بوجھ اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے یعنی کہ پاکستان اور یورپی یا عرب ممالک کے درمیان مہنگائی کا موازنہ کرنا بالکل درست بات نہیں۔
غربت
جب ایک شخص یا خاندان اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ غریب کہلاتا ہے۔ یہ بنیادی ضروریات متوازن غذا، علاج، تعلیم، کپڑا، سر پر چھت اور بجلی وغیرہ ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ہر ملک کے لیے ان کی معاشی حیثیت کے مطابق غربت ماپنے کے لئے الگ الگ پیمانے مقرر کیے گئے ہیں۔ انتہائی غریبوں میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو 1.8 ڈالر یومیہ سے کم کماتے ہیں۔
آمدن کے لحاظ سے معاشی طبقات
علم معاشیات کے مطابق آمدنی کے لحاظ سے معاشرے کو تین معاشی طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے طبقے کو اپر کلاس دوسرے کو مڈل کلاس اور تیسرے کو لوئر کلاس کہا جاتا ہے۔ اپر کلاس میں انتہائی مالدار لوگ (ارب پتی اور کروڑ پتی) شامل ہوتے ہیں۔ لوئر کلاس غریبوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جبکہ مڈل کلاس کو مزید دو طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے جو اپر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کہلاتے ہیں۔
مڈل کلاس میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی آمدنی ان کے اخراجات سے زیادہ ہو یعنی کہ ماہانہ یا سالانہ حساب سے اپنی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ پیسے کی بچت ہوتی ہے۔ اب یہ پیسے کی بچت ہزاروں روپیوں میں بھی ہوسکتی ہے اور لاکھوں میں بھی۔ یہی بنیادی نقطہ اپر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے ۔
تجارتی منافع یا تجارتی خسارہ
جس ملک کی برآمدات (باہر ممالک کو بھیجنے والے مصنوعات) اگر ان کی درآمدات (بیرون ملک سے منگوائے جانے والے مصنوعات) سے زیادہ ہو تو اسے منافع کی تجارت کہا جاتا ہے اور اگر معاملہ اس کے الٹ ہو تو پھر یہ خسارے کی تجارت کہلاتی ہے۔ ظاہر ہے پھر اس خسارے کو یا تو ٹیکس آمدنی سے پورا کیا جائے گا یا قرضوں کے ذریعے۔ جو معیشت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
قرضوں کے اقسام
قرضوں کے دو بڑے اقسام ہوتے ہیں جسے نرم اور سخت قرضہ کہا جاتا ہے۔ نرم قرضہ کی واپسی سود کی ادائیگی کے بغیر ہوتی ہے یا اس قرض پر سود کی شرح انتہائی کم (دو فیصد سے کم) مقرر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس قرضے کے ساتھ کسی مخصوص کرنسی میں واپسی کی شرط بھی شامل نہیں ہوتی۔ جبکہ سخت قرضہ میں ایک تو شرح سود زیادہ (چھ فیصد سے زیادہ) ہوتا ہے اور دوسرا اس کے ساتھ مخصوص کرنسی میں واپسی کی شرط بھی شامل ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے دیے ہوئے اکثر قرضے اس قسم کے ہوتے ہیں۔ جبکہ نرم قرضے اکثر دوست ممالک کی طرف سے دیے جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے قرضے
اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنے کی قابل ہے کہ آئی ایم ایف جب بھی کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو اس کے ساتھ شرائط کا ایک بہت بڑا لسٹ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ قرضہ کبھی بھی یکمشت نہیں ملتا بلکہ سلسلہ وار دیا جاتا ہے۔ نئے قسط ادا کرنے سے پہلے شرائط پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر ادارہ مطمئن نہ ہو تو اگلے قسط ادا کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک معاشی حتیٰ کہ سیاسی طور پر بھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر چلنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
آئی ایم ایف کا دیا ہوا قرضہ اکثر بجٹ اور مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک ترقیاتی منصوبوں یا عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مختص ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا قرضہ لینا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اگر ایک ملک قرضے کے پیسوں پر ڈیم یا موٹر وے کی تعمیر کریں تو وہ ڈیم بجلی اور سڑک ٹول ٹیکس کی صورت میں حکومت کو آمدنی دے کر حساب برابر کر سکتا ہے مگر ان تمام باتوں کا انحصار قرضے کی صحیح استعمال پر ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری
بیرونی سرمایہ کاری دو طرح کی ہوتی ہے ایک بیرونی دنیا سے جب کوئی کمپنی یا حکومت آپ کے ملک میں سرمایہ لگائے اور دوسرا جب آپ کا ملک بیرونی ملک میں کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگائے۔ سرمائے کی کمی کے مسئلے سے دوچار ممالک کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اس میں اس ملک کا سراسر فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مشہور چینی کمپنی ہائیر نے لاہور میں لیپ ٹاپ بنانے کا کارخانہ لگایا۔ کارخانہ کی تعمیر سے پیداوار شروع کرنے تک تمام سرمایہ کمپنی نے لگایا، روزگار پاکستانیوں کو مل گیا، جبکہ کمپنی اپنی آمدنی پر حکومت پاکستان کو ٹیکس بھی ادا کرتی ہے اور یہاں بننے والے لیپ ٹاپ (چین کے مقابلے میں کم لاگت کی وجہ سے) عوام کو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتے ہیں ۔
زر مبادلہ کے ذخائر
ہم بچپن سے بار بار قومی خزانے کے بارے میں سنتے چلے آرہے ہیں مگر یہ قومی خزانہ کیا ہے اور کہاں موجود ہوتا ہے۔ دراصل ہر ملک کا ایک مرکزی بینک ہوتا ہے جو تمام بینکنگ سیکٹر کا نگران اور ریگولیٹر ادارہ ہوتا ہے۔ ملک کی کرنسی سے ملحقہ تمام اختیار بھی اسی مرکزی بینک کے پاس ہوتا ہے اور یہ قومی خزانہ بھی اسی بینک کے اندر ہوتا ہے۔ اس قومی خزانے کے اندر موجود دولت کو زرمبادلہ کے ذخائر کہا جاتا ہے۔ یہ دولت ملکی کرنسی، دیگر اہم بین الاقوامی کرنسیوں اور سونے کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر سے کسی ملک کی مالی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس ملک کے پاس کتنے مہینوں کی درآمدات کے لئے رقم موجود ہے اور کیا یہ ملک اپنے قرضے ادا کرنے کا قابل بھی ہے یا نہیں۔
دیوالیہ ہونے سے کیا مراد ہے
اگر کسی ملک کی زرمبادلہ کے ذخائر اتنی حد تک گر جائے کہ وہ اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے قابل نہ رہے تو اس کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بیرونی دنیا سے دیگر قرضوں کی فراہمی مکمل طور پر روک دی جاتی ہے۔ اور پھر اس ملک پر ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ ادا کرنے یا عوام کو بجلی، گیس اور تیل کی فراہمی کیلیے بھی پیسے نہ ہو۔ یہاں تک کہ بات بھوک اور فاقوں تک چلی جاتی ہے۔
بیرونی امداد
بیرونی امداد دو طرح کی ہوتی ہے یا تو یہ قرضوں کی شکل میں ہوتی ہے یا انسانی بنیادوں پر دی گئی امداد جن کو بعد میں واپس نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ پاکستان کا آزادی سے لے کر آج تک زیادہ دارومدار امریکی، یورپی اور عرب ممالک کی امداد پر رہا ہے۔ یہ وقتی طور پر تو فایدہ دیتا ہے مگر طویل مدتی طور پر انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ کیونکہ پھر حکومتی اداروں اور افراد کو اس طرح کی امداد لینے کی عادت لگ جاتی ہے۔ دوسرا کہ آپ کی اپنی خارجہ پالیسی آزاد نہیں رہتی بلکہ ڈونر ممالک کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔
کیپیٹلزم، کمیونزم اور اسلامی معاشی نظام
پاکستان تحریک انصاف، وہ پارٹی جس نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا
خوشی کی حقیقت، ہم کس حد تک خوش ہوسکتے ہیں۔