لیڈر کون ہوتا ہے؟ لیڈر اور سیاستدان یا لیڈر اور منیجر میں کیا فرق ہوتا ہے۔

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ لیڈر صرف وزیر اعظم، صدر، بادشاہ یا پارٹی سربراہ نہیں ہوتے بلکہ ہر میدان کے اپنے لیڈر ہوتے ہیں مثلا افلاطون، ارسطو، نطشے، امام غزالی فلسفہ کے لیڈر ہیں تو البیرونی، ابنِ سینا، نیوٹن اور آئن سٹائن سائنس کے میدان کے راہنما ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لیڈرشپ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اب اگر وہ خصوصیات کسی ایسے شخص کے اندر موجود ہیں جو ایک چھوٹی سی کمپنی کا مالک یا سی ای او ہو تو وہ اپنے نیچے کام کرنے والے لوگوں کے لئے لیڈر ہے۔

لیڈر اور مينیجر میں فرق

بات کمپنی کی آئی تو آئیے سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک مینیجر اور لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ مینیجر کے نیچے جس شخص نے اپنا کام اچھے سے کیا تو ان کی خوب تعریف (جھوٹ اور خوشامد پر مبنی) کی جاتی ہے اور جس نے کام نہیں کیا تو اسے کام سے نکال دیا جاتا ہے۔ جبکہ لیڈر کام نہ کرنے والے کے ساتھ بیٹھتا ہے اور انتہائی تمیز اور اچھے اخلاق کے ساتھ ان سے پوچھتا ہے کہ میرے بھائی بتا دیں آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ میں آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ منیجر “ہائر اینڈ فائر” پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ہے، وہ بے جا سختی کرتا ہے۔ لیڈر محبت کرتا ہے، آسانیاں پیدا کرتا ہے، کمپنی میں ملازمت کرنے والوں کو ایک گھر جیسا ماحول فراہم کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق منیجر سو فیصد کام لے کر بھی 60 فیصد سے زیادہ نتیجہ نہیں دے سکتا جب کہ لیڈر دو سو فیصد نتیجہ بھی دے سکتا ہے۔ حضرت عمر نے ایک صحابی سے کہا کہ اگر میں تمہیں فلاں جگہ جہاد کے لیے جانے کا کہوں تو جاؤ گے؟ صحابی نے جواب دیا اے امیر المومنین آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہے۔ آپ کمان ہے اور ہم آپ کے تیر، آپ جدھر چاہے ہمیں چلا دیں۔

لیڈر اور سیاستدان میں فرق

سیاستدان اور رہنما کے درمیان فرق جاننے کے لئے سیاستدان کی خصوصیات پر غور کرتے ہیں۔ سیاست دان ہمیشہ اکثریت کی فکر میں رہتا ہے وہ اکثریت کی خوشنودی (ووٹ) حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے، ان کو سبز باغ دکھاتا ہے یعنی کہ دھوکہ دہی کرتا ہے۔ ان کی نظر پارلیمان کی کرسی تک جاتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے، انا پرستی اور تکبر کا شکار ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں غریب عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی حالانکہ ووٹ لینے کے وقت پھر انہی لوگوں کے سامنے بھکاری بن جاتا ہے۔

انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے پختون رہنما خان عبد الغفار خان

ان کے مقابلے میں لیڈر سیاست اپنے لئے نہیں اپنی قوم کے لئے کرتا ہے۔ ان کا جینا مرنا اپنے غریب عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے مفادات کے تحفظ اور حقوق لینے کی خاطر وہ جیل جاتا ہے، تشدد برداشت کرتا ہے، اپنے اور اپنے پیاروں کی قربانی دیتا ہے۔ وہ حق و سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور سچ بولنے کا ہمت و حوصلہ رکھتا ہے ان کی سیاست اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ بھلا ایسے لیڈر ہوتے کہاں ہیں تو چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ گاندھی جی اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کانگریس کے صدر بنے تھے نہ جنرل سیکرٹری۔ مگر وہ لوگوں کے دلوں میں بسنے کی وجہ سے کسی بھی کانگریسی رہنما سے زیادہ حیثیت، اہمیت اور طاقت کے مالک تھے۔ گاندھی جی نے نہ کبھی وزارت قبول کی نہ کوئی دوسرا اعلیٰ عہدہ۔ 15 اگست 1947 کو دہلی میں آزادی کی تاریخی تقریب منعقد ہو رہی تھی تو گاندھی پاگلوں کی طرح کولکتہ کے سڑکوں پر ہندو مسلم فسادات روکوانے کے لیے لوگوں کی منت کر رہے تھے۔ دوسرے بھارتی رہنماؤں کے برعکس انکے مطابق مسئلہ کشمیر کا سب سے موزوں حل یہ ہے کہ کشمیریوں کو اپنا مستقبل طے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ آزادی کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے اثاثوں کی تقسیم میں پاکستان کو اپنا حصہ نہ دینے کی بات پر آپ نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر کے بھارتی حکومت کو اس کام پر مجبور کر دیا۔ کیونکہ لیڈر اپنی قوم کے لیے سیاست کرتا ہے مگر وہ کبھی بھی تنگ نظر قوم پرست نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح اپنی قوم کی بھلائی چاہتا ہے ویسا دیگر اقوام کے لئے بھی چاہتا ہے۔

باچا خان نے اپنی وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جوانی کا زیادہ تر حصہ انگریزوں کے جیل میں گزارا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد پختونوں کے حقوق کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر ڈٹا رہا ۔

نیلسن منڈیلا اپنی قوم کیلئے 27 سال تک جیل میں رہے مگر اپنے موقف اور اصولوں سے پیچھے نہ ہٹے۔

جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے روح رواں نیلسن منڈیلا

اصولوں کی سیاست کے بارے میں ایک بہترین مثال جنرل ایوب خان کے زمانے سے وابستہ ہے کہ جنرل صاحب نے 1968 میں ایک کل جماعتی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی۔ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ولی خان نے کانفرنس چھوڑنے کا اعلان کیا اور یہ جواز پیش کیا کہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کانفرنس میں شریک نہیں ہے۔ جنرل صاحب نے کہا خان صاحب کیا آپ ایک آدمی کے نہ ہونے کی وجہ سے کانفرنس کو ناکام کرانا چاہتے ہیں۔ خان نے کہا جنرل صاحب بات ایک شخص کی نہیں اصولوں کی ہے۔ اصولوں کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں شیخ صاحب موجود ہونے چاہیے۔ یوں مجبوراََ جنرل صاحب نے حکم دے دیا اور شیخ مجیب الرحمن کو سیدھا جیل سے کانفرنس روم پہنچایا گیا۔

لیڈران نظریاتی لوگ ہوتے ہیں وہ وقتی فائدہ کی خاطر اپنے خیالات و نظریات تبدیل نہیں کرتے جبکہ سیاستدانوں کی نظر میں نظریہ جائے بھاڑ میں۔

مندرجہ بالا بحث سے ہمارے سامنے لیڈرشپ کی جو خصوصیات سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں۔ کہ یہ لوگ ایماندار، سچے، مخلص، بلند حوصلہ کے مالک، خود غرضی سے پاک، علم والے، دوراندیش، قربانی دینے والے، بہادر، قابل، عاجز، مددگار، عزت دینے والے، فیصلہ لینے والے، مسائل حل کرنے والے اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیڈر خود مثال بنتے ہیں اس لئے عوام ان کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ صاحبان طاقت اپنے ساتھ نہیں رکھتے بلکہ لوگوں کو طاقتور اور خودمختار بناتے ہیں۔

فسطائیت (فاشزم) کیا ہوتا ہے؟ کونسی ریاست فسطائی ریاست ہوتی ہے؟

جنرل ضیاء الحق کا ہنگامہ خیز دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

2 thoughts on “لیڈر کون ہوتا ہے؟ لیڈر اور سیاستدان یا لیڈر اور منیجر میں کیا فرق ہوتا ہے۔”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *