قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا

مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)

آج 5 جولائی ہے، آج سے 45 برس پہلے آج ہی کی دن پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔ اس بلاگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں بحث کریں گے۔

پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کے 167 جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 87 نشستیں حاصل کیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات میں اپنے چھ نکاتی فارمولا کی بنیاد پر حصہ لیا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا روٹی، کپڑا اور مکان۔ ان دنوں دونوں رہنما اپنی مقبولیت کے بام پر تھے۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کی طرف سے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوا، جس نے آزادی کی تحریک کی شکل اختیار کی۔ جنرل یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کے غلط اقدام کی وجہ سے حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچے۔ نومبر 1971 میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور 16 دسمبر کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا۔

بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا

پاکستان کے دولخت ہونے کے چار دن بعد 20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا اور بھٹو سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ 14 اپریل 1972 کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو بھٹو نے صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال لیا اور مارشل لاء کو ختم کردیا گیا۔

جنرل یحیٰی خان

بھٹو دور میں پارلیمان نے متفقہ آئین منظور کیا جسے 14 اگست 1973 سے سے ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین کی رو سے ملک میں پارلیمانی نظام رائج کیا گیا اور بھٹو وزیر اعظم بنے۔

اگلے سال مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے پارلیمان نے ملکی آئین میں ترمیم کی جن کی رو سے “مسلمان” کی تعریف کی گئی کہ مسلمان وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کو ایک مانتا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، یعنی کہ وہ تمام لوگ جو عقیدہ ختم نبوت سے انکاری ہیں انہیں غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ اس ترمیم کا ہدف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا تھا۔

بھٹو پاکستان کی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا عزم کر چکے تھے۔ اس کے منہ سے نکلا یہ جملہ آج بھی ہر خاص و عام کے زبان پر ہے کہ “ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے”۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ممتاز سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان بلا لیا اور یوں اس اہم سفر کا آغاز کیا گیا۔

چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کا مرحلہ پیش آیا تو وزیر اعظم بھٹو نے ایک جونیئر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا۔ 1977 کے الیکشن کے موقع پر بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد سامنے آیا۔ 7مارچ 1977 کو الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی نے 155 نشستیں حاصل کیں جبکہ پی این اے صرف 35 نشستوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگا کر حکومت کے خلاف تحریک شروع کیا گیا۔ اسی حالات کو موقع غنیمت جانتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو ملک میں تیسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کی۔ 17 ستمبر 1977 کو بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا اور دو سال بعد ملک کے اس پہلے منتخب وزیراعظم، قائد عوام اور عالم اسلام کے مقبول لیڈر کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق

بھٹو دور میں معیشت کی صورت حال

بھٹو دور میں پاکستان کا پہلا ایٹمی بجلی گھر تیار ہوا۔ روس کی مدد سے پاکستان سٹیل ملز پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا اور ملک کی دوسری بڑی بندرگاہ پورٹ قاسم تعمیر کی گئی۔

وزیر اعظم بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر ملک میں نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذ کی۔ سینکڑوں چھوٹے بڑے بینک، مالیاتی ادارے اور کارخانے قومیا لیے گئے یعنی حکومتی کنٹرول میں لئے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ بھٹو نے یہ کام نیک نیتی سے سرانجام دیا ہو مگر اس سے ملک کا فائدے کے بجائے نقصان ہوا اور غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو کر رہ گئی۔

بھٹو نے پاکستانیوں کو ملک سے باہر روزگار کے لیے جانے کی ترغیب دی، بیرون ملک غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ اور ان ممالک کی حکومتوں کے ذریعے ویزے فراہم کیے گئے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی ملک کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے۔

بھٹو دور میں ترقی کی سالانہ شرح اوسطاً 4.5 فیصد رہی جبکہ ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح بھی اس دور میں ریکارڈ کی گئی جو 37 فیصد تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو

بھٹو کی خارجہ پالیسی

بھٹو نے آتے ہی امریکی معاہدوں سے ملک کو نکالا، روس کا دورہ کیا اور پالیسی امریکہ کی طرف سے روس کی طرف شفٹ کی۔

وزیراعظم نے 1972 میں بھارت کا دورہ کیا اور اپنی شرائط پر شملہ معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوئے۔ 93000 پاکستانی جنگی قیدیوں کو وہاں سے رہا کردیا گیا۔ بھارت کے ساتھ معاہدہ کر کے دلی سے لاہور سمجھوتا ایکسپریس کا افتتاح کیا۔

عرب اسرائیل جنگ کے ردعمل میں عربوں نے مغربی ممالک پر تیل کی فراہمی بند کرا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی بھی دراصل بھٹو ہی کی تھی۔بھٹو کے دور میں مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ تعلقات انتہائی بلند سطح پر تھے۔ 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کیا جس میں عالم اسلام کے اتحاد کا منصوبہ پیش کیا۔

اسی دور میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مداخلت شروع ہوئی جب مذہبی جماعتوں کو سیکولر جماعتوں کے مقابلے میں مدد فراہم کی گئی۔ دراصل 1950 اور 1960 کی دہائی میں افغانستان نے کئی مرتبہ پاکستان میں فوجی مداخلت کی تھی جبکہ پاکستان اس وقت بے بس تھا۔ اب بس چلی تو اپنا کام شروع کر دیا۔

تاریخ پاکستان : کیا جنرل یحییٰ خان مکمل طور پر ناکام حکمران تھے

تاريخ پاکستان : کیا واقعی جنرل ایوب خان ملک کے سب سے اہل حکمران تھے

تاريخ پاکستان : پہلا جمہوری دور (1947-58)

1 thought on “قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دور حکومت: کیا اچھا کیا برا”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *