فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

فلسفہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے “علم سے محبت”۔ ہم فلسفے کی ایک یا دو لائن میں ایک متفقہ تعریف نہیں کر سکتے مگر یہ کہ فلسفہ دراصل چیزوں کی وجود اور حقیقت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایک فلسفی سوالات بناتا ہے، سوالات اٹھاتا ہے اور سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ سوالات کیا ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر خدا، انسان، دنیا، آخرت، زندگی، موت، نفس، روح اور شیطان کی وجود اور حقیقت کو معلوم کرنا۔ اس لحاظ سے اگر ہم غور کریں تو فلسفہ سب سے اہم مضمون معلوم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ افلاطون نے اپنی خیالی ریاست کے لیے بادشاہ کی کرسی صرف فلسفی کے لیے مختص کی ہوئی تھی۔

ان بنیادی سوالات کی مزید تشریح کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر طبیعیات دان کسی واقعے کا وجہ معلوم کرتا ہے جبکہ فلسفی وجہ کے وجود کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ۔ اسی طرح تاریخ دان ان تاریخی شخصیات کے بارے میں بحث کرتا ہے جنہوں نے انصاف کے لیے جدوجہد کی ہو جبکہ فلسفی انصاف کی حقیقت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا یہ کہ ایک ماہر اقتصادیات سرمائے کی تقسیم کے بارے میں لکھتا ہے اور فلسفی سرمایہ داری کی اخلاقی خوبیوں کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔

فلسفہ کی ابتدا

فلسفے کی ابتدا یونان سے ہوئی ہے اور سقراط کو دنیا کا سب سے پہلا باقاعدہ فلسفی قرار دیا جاتا ہے ۔ جس کا شاگرد افلاطون اور افلاطون کا شاگرد ارسطو تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک کا زمانہ فلسفے کا اولین اور قدیم دور کہلاتا ہے۔ اسی دور میں مشرق میں ایران میں زراسٹر سے فلسفے کی شروعات ہوتی ہے جو فلسفیوں میں توحید کے اولین داعی تھے اور اچھائی و برائی کے درمیان فرق کا درس دینے والے تھے ۔

عظیم یونانی فلسفی سقراط

قرون وسطٰی میں یورپی و اسلامی فلسفہ

چھٹی صدی سے سولہویں صدی عیسوی تک کا دور قرونِ وسطٰی کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اس دور میں یورپ کے اندر یونانی فلسفے کو مذہبی ( عیسائی ) سانچے میں ڈھال دیا گیا اور خدا کے وجود ، ایمان، استدلال کی نوعیت اور برائی جیسے مسائل پر بحث کی گئی ۔

اسی دور میں مشرق وسطٰی میں فلسفہ کو یونانی زبان سے ترجمہ کرکے اسلام کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا گیا یعنی کہ تمام بنیادی سوالات کے جوابات کو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق یا قبول کر دیا گیا اور یا رد کر دیا گیا۔ چونکہ آٹھویں صدی سے چودہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ اسلام کا سنہرا دور کہلاتا ہے ۔ اسی بنا پر الکندی، ابن سینا، ابنِ رُشد، ابن الہیثم، البیرونی، غزالی اور ابن خلدون نے فلسفہ میں ایسا کام پیش کیا جو صدیوں تک یورپی یونیورسٹیوں میں پڑھایا گیا ۔ ابتدائی اسلامی فکر کے دو دھارے تھے ایک کلام جن کی توجہ الہیات اور دوسرا فلسفہ جن کی بنیاد یونانی فلسفہ تھا۔

یورپ کا جدید دور

یہ جدید دور سترہویں صدی کے انگریز فلسفی تھامس ہابز کے کام سے شروع ہوتا ہے ۔ اس دور کے فلسفیوں نے مذہب سے سیکولر ازم اور عقلی دلیل تک کا سفر کیا ۔ دلیل کی بنیاد پر تمام نظریات کا جائزہ لیا گیا ۔ عظیم جرمن فلسفی نطشے عیسائی مخالف صورت میں سامنے آئے جبکہ کارل مارکس نے ایک طرف تاریخ کی اپنا نقطہ نظر سے درجہ بندی کی تو دوسری طرف کمیونزم کی شکل میں ایک سیاسی و معاشی نظریہ بھی پیش کیا۔

ہندوستانی فلسفہ

ہندوستانی فلسفہ ہندو مت کی مقدس کتاب رگ وید پر انحصار کرتا ہے ۔ مغربی سائنسدانوں مثلاً آئن سٹائن جیسے لوگوں نے بھی رگ وید سے رہنمائی لی ۔ ہندو فلسفیوں نے چیزوں کی حقیقی نوعیت سے لاعلمی کو مسائل کا جڑ قرار دیا ہے۔ ہندوستان کے اندر بدھ اور جین فلسفہ بھی پایا جاتا ہے ۔

مسلم فلسفی امام غزالی

فلسفہ کی شاخیں

جمالیات

جمالیات در حقیقت فن ، ثقافت اور فطرت کی تنقیدی عکاسی ہے ۔ یہ حسوں اور جذباتی اقدار کا مطالعہ کرتا ہے ۔ اس کے حصے آرٹ تیوری، ادبی تیوری، فلم تیوری اور میوزک تیوری ہیں ۔

اخلاقی فلسفہ

اخلاقی فلسفہ کا موضوع اچھا برا اور صحیح غلط پر بحث کرنا ہوتا ہے۔ فلسفے کی یہ شاخ اخلاقی معیار مقرر کرتی ہے اور اچھی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ دکھاتا ہے ۔ اخلاقی اعمال کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں ۔ پہلا نتیجہ پرستی ہے یعنی کہ اعمال کے نیک و بد کا فیصلہ اس کا نتیجہ کرتا ہے ۔ دوسرا ڈیونٹولوجی ہے یہ اعمال کو اس زاویے سے دیکھنا ہے کہ آیا وہ سر انجام دینے والے کے اخلاقی فہرست کے مطابق ہے یا نہیں۔ تیسرا فضیلت کے اخلاق ہے جو کسی شخص کے اخلاقی کردار کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ عمل ایک مثالی نیک ایجنٹ کے عمل کا کتنا قریب ہے۔

علمیات

علمیات علم کا مطالعہ ہے اس میں علم کے حقیقی ذرائع کا جانچ کیا جاتا ہے یعنی یہاں ادراک ، تجربہ ، یاداشت ، گواہی ، سچائی ، عقیدہ ، جواز اور عقلیت کے بارے میں سوال کئے جاتے ہیں۔

فلسفیانہ شکوک وشبہات

فلسفے کا یہ حصہ ہمیشہ سے دلچسپی کا ایک اہم موضوع بنا رہا ہے ۔ یہ علم کے کچھ دعووں کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات پر بحث کرتا ہے ۔ سب سے زیادہ قابل ذکر علمی مباحثوں میں ایک تجربہ پرستی اور عقلیت پسندی کے درمیان ہے۔

ما بعد الطبیعیات

انگریزی میں میٹا فزکس کے نام سے مشہور اس مضمون میں حقیقت کی عمومی خصوصیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جیسا کہ وجود ، وقت ، واقعات اور ان کی خصوصیات پر گفتگو کرنا یا کہ عمل اور جسم کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق ۔ یاد رہے کہ برصغیر کے مشہور فلسفی و شاعر ڈاکٹر محمد اقبال نے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کیا تھا ۔

منطق

منطق فلسفے کی قدیم اور اہم ترین شاخ ہے ۔ یہ استدلال اور دلیل کا مطالعہ ہے جن کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ۔ یہاں اکثر قیاس (برابری) کا اصول استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اسلام میں شراب پینا اس وجہ سے حرام ہے کہ یہ انسان کو قول و فعل سے بے خبر کر دیتا ہے اب وہ تمام نشہ آور چیزیں جو انسان کو اپنے قول و فعل سے بے خبر کرتے ہیں کو حرام قرار دیا گیا ہیں ۔

اس کے علاوہ دنیا کے تمام مضامین کے اندر تھوڑا یا زیادہ فلسفیانہ بحث موجود ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر بھی فلسفیانہ گفتگو کی گئی ہے جس سے فلسفہ کے بے شمار شاخیں وجود میں آ چکی ہیں مثلاً سائنسی فلسفہ ، سیاسی فلسفہ ، اقتصادی فلسفہ ، مذہبی فلسفہ وغیرہ ۔

ذہانت کے اقسام

روح، دل اور نفس کی حقیقت

بہترین استاد کون؟

3 thoughts on “فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *