غنی خان ایک فلسفی ؛ خان کا فلسفہ کیا تھا ؟

مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )

خان عبدالغنی خان 1914 میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں باچا خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ باچا خان اپنے وطن کی ازادی کے لیے برطانوی استعمار کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے رہے ۔ آپ کو برطانوی ہند کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ ایک باثر خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے غنی خان نے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کیا اور اپنی زندگی میں ہی شہرت کے بام عروج پر پہنچے ۔ آپ کی کامیابی کے پیچھے آپ کی بے پناہ ذہانت تھی جس نے اپ کو ایک ہمہ گیر اور تاریخ ساز شخصیت بنا ڈالا ۔ آپ بیک وقت ایک عظیم شاعر ، منفرد فلسفی ، بہترین مصور ، یکتا مجسمہ ساز اور غیر معمولی دانشور تھے ۔

پختون آپ کو فلسفی شاعر ، لیونے فلسفی (پاگل فلسفی) اور علم کی سمندر جیسے خطابات سے یاد کرتے ہیں ۔ آج کے بلاگ میں آپ کے فلسفے کے اہم نکات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے ۔

زندگی کا نچوڑ

خان کے مطابق زندگی کا نچوڑ محبت اور امن ہے ۔ روحانیت میں اس کا مطلب کائنات اور انسانیت کے ساتھ جڑنا ہے کہ آپ لوگوں کا بھلا کرے اور آپ سے کسی کو بھی کسی قسم کا تکلیف نہ پہنچے ۔

برابری

غنی خان تمام انسانوں کے درمیان مساوات پر مبنی ایک اتحاد چاہتے تھے جس کے اندر مذہب ، فرقہ ، قوم ، خاندان اور دولت وغیرہ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو ۔

باچا خان

فطرت کا احترام

چونکہ خان ایک شاعر تھے اور شاعر کا فطرت کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے یوں آپ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ فطرت کا احترام بہت ضروری ہے ۔ کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہو بلکہ فطرت اور ماحول کا تحفظ ہم سب پر لازم ہے ۔

سوچ کی آزادی

غنی خان کے فلسفے کا اہم نکتہ فکر اور سوچ کی ازادی ہے ۔ دراصل ازادی کے تمام اقسام میں سب سے اہم ازادی یہی ہے ۔ فکر کی ازادی آپ کو تنقیدی اور تخلیقی سوچ کا موقع فراہم کرتا ہے یہی حقیقت تک پہنچنے کا راستہ ہے جو آپ کو معرفت خودی کے راستے معرفت خداوندی تک پہنچاتا ہے ۔ سوچ کی ازادی کے بعد اظہار رائے کی آزادی کی باری اتی ہے ۔

تعلیم کی اہمیت

بیسویں صدی میں پختونوں کے ہاں تعلیم خصوصاً مغربی تعلیم کے حصول کو برا تصور کیا جاتا تھا ۔ خان نے تعلیم کو معاشرے کی ترقی کی کنجی قرار دے دیا یہی نہیں بلکہ مغرب کی ترقی کا خود مشاہدہ کرتے ہوئے خواتین کو بھی تعلیم دلوانے کی ترغیب دی یعنی آپ صنفی مساوات پر یقین رکھتے تھے اور اس کا ثبوت آپ کا خاندان بذات خود ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ اسی بارے میں کہتے ہیں کہ

بې تعلیمه ښځه غوا ده
سخو کټو له بې بها ده

جبر کے خلاف مزاحمت

خان بہادر باپ کے بیٹے تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جبر کے خلاف پہلے انگریزوں اور بعد میں پاکستان کے جیلوں میں گزارا ۔ سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ نے بھی کئی سال جیل میں گزارے ۔ یوں آپ نے اپنی شاعری میں جبر اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے اور تمام مصائب کو برداشت کر کے ڈٹ جانے کا درس دیا ۔

عدم تشدد

گاندھی جی نے ایک مرتبہ خیبر پختون خواہ کا دورہ کیا تو کہا کہ میں یہاں یہ معجزہ دیکھنے آیا ہوں کہ باچا خان نے کس طرح ایک جنگجو پختون قوم کو عدم تشدد کی پالیسی پر چلنے کے لیے قائل کیا ۔ اپنے والد کی طرح عبدالغنی خان بھی تشدد کو تباہی اور عدم تشدد کو پائیدار امن کے حصول کا راستہ قرار دیتے تھے ۔

اپنی ثقافت سے محبت

خان پختونوں کے منفی روایات و عادات پر کھل کر تنقید کرتے رہے مگر انہیں اپنی قوم اور ثقافت سے بے پناہ محبت تھی یہاں تک کہ آپ پختونوں کے بنا جنت میں جانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے ۔ جیسا کہ کہا

خدايه شکر چې پيدا دې د دې قام کړم
د پښتون د نر وجود دې يو اندام کړم

په والله چې د جنت نه به شم ستون
که کنځل پکې وانۀ ورم د پښتون

آپ نے کہا کہ پختون ثقافت دنیا کے ورثے کا ایک بھرپور اور قیمتی حصہ ہے اور ہم سب پر اس کی حفاظت کرنا لازم ہے ۔

اسلامی فلسفہ کے نمایاں خصوصیات ، آئیے اسلامی فلسفہ کو جاننے کی کوشش کریں ۔

فلسفہ کسے کہتے ہیں، فلسفی کون ہوتا ہے؟ جانئیے۔

4 thoughts on “غنی خان ایک فلسفی ؛ خان کا فلسفہ کیا تھا ؟”

  1. Murtaza Haider

    Great information. Keep posting about these personalities and their contributions and lessons for today’s generation or else they will forget them.
    Indeed Ghani Khan was a legendary poet, great philosopher, a patriot, Pakhtoon Loving, deep mindset personality and a legend of his era. May Allah bless him in his eternal life. Ameen.

  2. Murtaza Haider

    A line from his poetry “Gunahgar Ym” :
    کہ ساقی دہ کوہ قاف وی
    کہ شراب وی دہ شیراز
    بس پیکہ می تری زڑگے شی
    چی معلوم یی کڑمہ راز
    Very deep and soulful poetry.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *