عوامی نیشنل پارٹی ؛ کل اور آج

مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر )

وہ لوگ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں جو غلامی کے زمانے میں اپنی قوم کے لئے خدمات سرانجام دیتے ہیں، جو قوم کی خاطر جیل کاٹتے ہیں، کوڑے کھاتے ہیں اور غداری کے الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔ تاریخ اہل اقتدار کے چاپلوسوں اور ہر وقت ذاتی و وقتی مفادات کے پیچھے بھاگنے والوں کو بھلا دیتی ہے۔ نام زندہ رہتا ہے تو ان لوگوں کا جو وقت کے فرعونوں کے سامنے موسیٰ کی طرح حق بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بڑا نام برطانوی ہند سے تعلق رکھنے والے پختون رہنما خان عبدالغفار خان کا ہے۔ پختونوں کے درمیان باچاخان کے نام سے مشہور عبدالغفار لڑکپن سے دیگر افغان خوانین کے لڑکوں سے مختلف تھا۔ انہوں نے دل میں اپنے لوگوں کے لئے کچھ کر گزرنے کی خاطر 1929 میں سماجی تحریک خدائی خدمتگار کی بنیاد رکھی۔

خدائی خدمت گار تحریک دراصل پختون معاشرے کی اصلاح اور خدمت کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن 1930 میں پہلے قصہ خوانی بازار پشاور اور پھر مردان کے ٹکر گاؤں میں جب انگریزوں نے پختونوں پر سیدھی گولیاں چلا کر ان کو لہولہان کر دیا تو یہ تحریک سماجی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بن چکی۔ سیاست میں آنے کے بعد باچا خان نے مسلم لیگ کی طرف اتحاد کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر مثبت جواب نہ ملنے پر کانگریس کے اتحادی بنے اور یہ اتحاد پھر تقسیم ہند تک قائم رہی۔

خیبرپختونخوا میں حکومتیں

تنظیم نے 1937 اور 1946 کے انتخابات میں حصہ لے کر دو مرتبہ خیبرپختونخوا میں میدان مار لیا اور باچا خان کے بڑے بھائی عبدالجبار خان (ڈاکٹر خان صاحب) وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔

قیام پاکستان کے بعد

آزادی کے صرف ایک ہفتہ بعد 22 آگست کو خیبرپختونخوا میں خدائی خدمتگار کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔ باچاخان پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے جہاں انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں واضح کیا کہ گویا ہم تقسیم ہندوستان کے منصوبے کے خلاف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد معاملہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ہم سب اس ملک کے مشترکہ باسی ہیں۔ باچا خان اور قائد اعظم کے مابین ملاقات ہوئی تو قائداعظم نے آپ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

ولی خان اپنے والد باچا خان کے ساتھ

مگر حالات جلد تبدیل ہوئے اور پختونخوا کے کشمیری وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان نے قائداعظم کے کانوں کو خدائی خدمتگار کے خلاف بھر دیا۔ جون 1948 کو باچا خان، ولی خان سمیت سینکڑوں خدائی خدمتگار کارکنان کو گرفتار کرکے تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور جب ان گرفتاریوں کے خلاف بابڑہ، چارسدہ کے مقام پر پرامن احتجاج کے لیے لوگ جمع ہونے لگے تو پاکستان کی اس صوبائی حکومت نے ظلم میں انگریزوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور سینکڑوں معصوموں کو خون میں نہا دیا گیا ۔

باچا خان کو تقریباً سات سال تک جیل میں رکھا گیا اور جب ان کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تو پاکستان کے حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ بابا نے عملی طور پر اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر دیا۔ دوسری طرف 1955 میں ون یونٹ سسٹم رائج کیا گیا تو ڈاکٹر خان صاحب صوبہ مغربی پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ بابا کی جگہ انکے بیٹے ولی خان نیپ کے پلیٹ فارم سے پاکستانی سیاست میں متحرک ہوئے۔

نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ )

نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد بنگالی سیاسی رہنما حسین شہید سہروردی اور خان عبدالولی خان نے 1957 میں رکھی ۔ اس پارٹی کے منشور میں سیکولر نظام کا قیام ، حقیقی جمہوریت کا احیاء ، سماجی انصاف اور صوبائی خود مختاری جیسی نکات شامل تھیں ۔ اس جماعت میں ملک کی تمام اقوام کو نمائندگی دی گئی تھی ۔ جماعت کی بہت جلد مقبولیت کی وجہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ہم نوا مسلم لیگی سیاستدان انتہائی خوفزدہ ہوئے ۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اگلے الیکشن میں نیپ کی ممکنہ جیت کے راستے کو روکنے کے لیے 1958 میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔

جنرل ایوب دور

جنرل ایوب خان کے دور میں پہلے تو سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگائی گئی مگر 1962 کے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے بعد اسے اٹھایا گیا ۔ اسی دور میں نیپ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی جس کی وجہ سے رہنماؤں کی قید و بند کی صعوبتیں جاری رہیں ۔ 1965 کے صدارتی الیکشن میں نیپ نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا مگر نتیجہ پھر بھی جنرل ایوب کے حق میں نکلوایا گیا ۔ 1968 میں نیپ دو حصوں میں بٹ چکی ۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی روخان یوسف زئی کے مطابق نیپ کے دو حصوں میں تقسیم کی وجہ نظریاتی اختلاف تھا کہ بنگالی رہنما مولانا بھاشانی چین نواز تھے جبکہ خان عبدالولی خان کا جھکاؤ روس کی طرف تھا ۔

عام انتخابات 1970

جنرل یحیٰی خان کے دور میں منعقدہ ان انتخابات میں نیپ ولی گروپ نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں میدان مار لیا اور جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ان دونوں صوبوں میں اتحادی حکومت قائم کی جبکہ مرکز میں ولی خان اپوزیشن لیڈر بنے ۔ چونکہ بھٹو ایک آمرانہ ذہنیت کے حامل شخص تھے یوں نیپ پر پابندی لگا کر بلوچستان حکومت کو چلتا کیا گیا ، رد عمل میں صوبہ سرحد کی حکومت بھی مستغفی ہوئی ۔ ولی خان سمیت نیپ کے کئی رہنماؤں کو حیدراباد جیل میں قید کر دیا گیا ۔

سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا مفتی محمود

عام انتخابات 1977

کئی سال کی سیاسی قید سے رہائی پا کر ولی خان اس الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس اتحاد کا حصہ بن چکے جو اسٹیبلشمنٹ کے چھتری تلے بنایا گیا تھا یہاں خان ایک خالص دیہاتی پختون کے روپ میں سامنے ائے جو ہر حال میں بھٹو سے اپنے کیے کا انتقام لینا چاہتے تھے اگرچہ خان نے کبھی بھی ضیا کے مارشل لا کو جائز قرار نہیں دیا اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک ایم ار ڈی میں بھی سرگرم رہے ۔

اے این پی کا قیام

چونکہ نیپ پر بھٹو نے پابندی عائد کی تھی یوں جماعت نے 1986 میں عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے نئے سفر کا اغاز کیا ۔

نوے کی دہائی

انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں پارٹی بے نظیر بھٹو کے ساتھ اتحاد میں رہی جبکہ 1990 سے لے کر 1998 تک نواز شریف کے ساتھ اتحاد قائم رہا جو وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور میں کالا باغ ڈیم اور صوبہ سرحد کو پختون خواہ کا نام نہ دینے جیسے مسائل پر ختم ہوا ۔ چونکہ اسی دور میں ولی خان عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے یوں پارٹی کی قیادت ان کی زوجہ بیگم نسیم ولی خان کے ہاتھوں میں آ چکی تھی ۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہی دور تھا جب اے این پی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست چھوڑ چکی ۔

نئی صدی

مشرف دور میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ خبر سامنے ائی کہ فوجی حکومت کی طرف سے اسفندیار ولی خان کو وزیراعظم بننے کی پیشکش کی گئی تھی مگر خان نے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر قائد ایوان بننے سے معذرت کر لی تھی ۔

اسی اثنا افغانستان میں امریکی جنگ کی بدولت صوبہ خیبر پختون خواہ ایک میدان جنگ میں تبدیل ہوا ۔ چونکہ اے این پی سیکولر جماعت ہونے کے ناطے ہمیشہ سے طالبان کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہے یوں جماعت کے درجنوں سرکردہ رہنماؤں اور سینکڑوں کارکنان کو طالبان کی طرف سے شہید کر دیا گیا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی نے کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔

ایمل ولی خان افغان وزیر خارجہ اور دیگر پختون سیاسی رہنماؤں کے ساتھ

خیبرپختونخوا میں حکومت کا قیام

دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں پارٹی خیبر پختونخوا میں امیر حیدر خان ہوتی کی قیادت میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت میں شامل ہوئی ۔ اس دور میں پارٹی نے صوبہ سرحد کو خیبر پختونخواہ کا نام دینے ، کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کی صورت میں صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے اور متنازعہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو پس پشت ڈالنے جیسی کامیابیاں حاصل کی ، یہی نہیں بلکہ صوبائی حکومت نے پانچ سال میں آٹھ یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ کئی بڑے ترقیاتی منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔

موجودہ حالت

اسفند یار خان کی علالت کے باعث پارٹی کی قیادت عملی طور پر ان کے صاحبزادے اور باچاخان کے پڑپوتے ایمل ولی خان کے ہاتھوں میں آ چکی ہے ۔ ماہرین چند ایک اختلافات کی وجہ سے افراسیاب خٹک ، بشریٰ گوہر اور لطیف لالا جیسی قد آور شخصیات کا جماعت سے راہیں جدا کرنے کو پارٹی کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دے رہے ہیں ۔ ایمل خان کو پختونوں کے اعتماد جیتنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنا ہے ۔

غنی خان ایک فلسفی ؛ خان کا فلسفہ کیا تھا ؟

پاکستان کا مستقبل ؛ اندازے و امکانات

آج کا طالب علم ؛ چیلنجز اور مواقع

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *