مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
پوری دنیا میں تاریخ اور علم سیاسیات سے وابستہ ایسا شخص مشکل سے ملے گا جو مسلمانوں کے خلیفہ دوم عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے نام سے واقف نہ ہو۔ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جیسا کہ چار بادشاہوں سلیمان علیہ السلام، ذوالقرنین، بخت نصر اور نمرود نے تو پوری دنیا پر حکمرانی کی تھی یا منگول بادشاہوں چنگیز خان، ہلاکو خان اور ان کی نسل میں بعد میں آنے والے تیمور نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں تھیں۔ عمر کی سلطنت (22 لاکھ مربع میل) ان سلطنتوں کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے کوئی بڑی سلطنت تھی نہ آپ نے دوسرے بادشاہوں کی طرح پچاس-پچاس سال تک حکمرانی کی مگر جب بھی دنیا میں طرز حکمرانی، انتظام سلطنت اور ایک فلاحی ریاست کے قیام کی بات کی جائے گی تو عمر کا نام سرفہرست ہوگا۔ دنیا کی تاریخ میں آپ جیسا ایڈمنسٹریٹر نہیں گزرا۔
آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر میرے بعد پیغمبر ہوتا تو وہ عمر ہوتا”۔ اگر ہم اس حدیث پر غور کریں تو یہ ایک بہت بڑی بات ہے لیکن اس کے باوجود آپ کا اپنے بارے میں خیال اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ
ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ آپ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اسلام چمک اٹھا۔ آپ نے جواب دیا نہیں میرے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے میں چمک اٹھا ورنہ میں تو بچپن اور لڑکپن میں اونٹوں کو بھی چرانے کے قابل نہیں تھا، پھر فرمایا کہ میری پھوپھی مجھ سے کہتی تھی کہ تم کچھ بھی نہیں بن سکتے۔ وہ شخص جنہیں بچپن میں کہا گیا تھا کہ آپ کچھ بھی نہیں بن سکتے۔ وہ اپنے زمانے کا سب سے طاقتور بادشاہ، بہترین ایڈمنسٹریٹر اور مسلمانوں کا امیر المومنین بن چکا۔
آپ کی حکمرانی کا عرصہ دس سال پر محیط تھا۔ اس دس سالہ عرصے میں آپ نے دنیا کو ایک مکمل سیاسی، معاشی، سماجی اور عدالتی نظام کا ایک ڈھانچہ اور نقشہ فراہم کیا۔ آج کی جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی آپ کی طرز حکمرانی کو فالو کیا جاتا ہے۔
مردم شماری اور زمین کی پیمائش
اپنی سلطنت کے رقبے اور اہم شہروں کے درمیان فاصلوں کو معلوم کرنے کے لیے اپنی زمین کی پیمائش کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ معیاری منصوبہ بندی کے لیے چونکہ پہلے اعداد و شمار کو معلوم کرنا ہوتا ہے اس لیے آپ نے مردم شماری کے ذریعے یہ کام بھی مکمل کیا۔
جمہوریت کا تصور
آج اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کا تصور نہیں ہے لیکن عمر کا نظام مکمل طور پر جمہوری تھا کیونکہ عمر خود عوام کی مرضی سے خلیفہ بنے تھے۔ اسی طرح دیگر افسران کی تقرری میں عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ عوام کو خلیفہ پر تنقید کرنے کی کھلی آزادی تھی یعنی اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں تھا۔ جمہوریت کے بارے میں تو آپ کا مشہور قول ہے کہ خلافت مشاورت کے بغیر ناممکن ہے۔

وفاقی نظام
حضرت عمر کی سلطنت رقبے کے لحاظ سے موجودہ پاکستان سے کم از کم چار گنا بڑی تھی۔ دارالحکومت مدینہ سے اتنی بڑی سلطنت کا انتظام چلانا آسان نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے سلطنت کو صوبوں اور صوبوں کو ضلعوں میں تقسیم کر دیا۔ ہر صوبے کا اپنا گورنر اور ضلعے کا اپنا سربراہ ہوتا تھا۔
افسران کی تقرری کا طریقہ
بڑے عہدوں کو پر کرنے کے لیے افسران کی تقرری کے لیے دو قسم کے طریقے رائج تھے۔ پہلا طریقہ آج کل کی انتخابات کا طریقہ تھا کہ علاقے کے لوگوں کو یہ اختیار دیا جاتا کہ وہ اپنے لیے خود امیدواروں میں کسی ایک کا انتخاب کریں۔ دوسرا طریقہ آج کل کی انٹرویو والا طریقہ تھا کہ ماہر صحابہ کرام کی ایک ٹیم امیدواران کی انٹرویو لے کر ان کی تقرری کرتے تھے ۔
احتساب کا نظام
چونکہ اس زمانے میں میڈیا تو موجود نہیں تھا کہ افسران کی جانب سے عوام کے ساتھ ناانصافی اور بدسلوکی کرنے کی خبر کو لیک کرتی۔ اس وجہ سے عمر نے حکم صادر کیا کہ تمام افسران کے لئے لازم ہے کہ وہ حج کے موقع پر مدینہ میں حاضری دیں گے۔ وہاں ایک دربار لگایا جاتا تھا ہر علاقے کے لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ اگر ان کی اپنے افسران سے متعلق کسی قسم کی بھی شکایت ہو تو بتا دیا جائے۔ شکایات سننے کے بعد افسران کو صفائی کا موقع دیا جاتا تھا۔ مدعی اور مدعا علیہ کے موقف کو سننے کے بعد امیرالمومنین موقع پر ہی فیصلہ صادر کرتے ۔
افسران کے لئے مقرر کردہ شرائط
حضرت عمر عوام کی منتخب کردہ نمائندوں کو ذمہ داریاں سونپنے سے پہلے ان کو کچھ باتوں اور کاموں کا خیال رکھنے کی سختی سے تاکید کرتے۔ مثلاً کہ
ترکی گھوڑا (قیمتی گھوڑا) استعمال نہیں کریں گے.
باریک کپڑا (قیمتی کپڑا) نہیں پہنیں گے۔
چنا ہوا آٹا استعمال نہیں کریں گے۔ یعنی کہ عمر کے مطابق یہ بھی ایک عیاشی تھی۔
دروازہ ہمیشہ ضرورت مندوں کے لیے کھلا رکھیں گے اور دروازے پر دربان نہیں ہوگا۔
نظام انصاف
یہ عمر ہی تھے جنہوں نے دارالحکومت مدینہ سے لے کر ضلعی سطح تک ایک وسیع عدالتی نظام کے قیام کو عمل میں لایا۔ اپیل کے لئے سب سے آخری مقام خلیفہ کی عدالت ہوتی تھی مگر خلیفہ کو بھی نظامِ انصاف اور قانون کا پابند بنایا گیا تھا۔ قاضی القضاء ( چیف جسٹس ) کو یہ اختیار حاصل تھا کہ خلیفہ کو عام شہری کی طرح کٹہرے میں کھڑا کریں۔
ان تمام باتوں کو عمل سے ثابت بھی کیا گیا کہ جب خلیفہ کے بیٹے نے شراب پی لی تو ان کو بھی اتنے کوڑے لگائے گئے جتنی سزا مقرر تھی۔ یہاں تک کہ وہ کوڑے کھانے کے دوران مر چکا تو امیر المومنین نے کہا کہ لاش کو کوڑے مار کر حساب پورا کیا جائے تاکہ کل قیامت کے دن میں اپنے رب کو کہہ سکوں کہ سزا میں کوئی رعایت نہیں دی گئی تھی۔

فوج کا محکمہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق کے زمانے میں جہاد کے لیے جانے سے پہلے جہاد کے لیے تیاری کا اعلان کیا جاتا تھا اور مقررہ وقت پر تمام مسلمان جہاد کے لیے نکلتے تھے۔ کسی خاص عذر کے علاوہ کسی کو بھی جہاد میں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر عمر نے کہا کہ اگر تمام مسلمان جہاد کے لئے جائیں گے تو کاروبار سلطنت کون چلائے گا، مدرسے کے اساتذہ اور طلبا جہاد کے لئے جائیں گے تو کیا مدرسے کو تالا لگایا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے فوج کا ایک باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ ان کے لئے چھاؤنیاں قائم کیں۔ فوجیوں کو باقاعدہ تنخواہ ادا کی جاتی تھی اور یہی لوگ جہاد کے لیے جاتے تھے۔
فوج کا ادارہ جاتی ڈھانچہ کچھ اس طرح بنایا گیا کہ دس سپاہیوں کے سربراہ کو عارف، سو سپاہیوں کے سربراہ کو قائد اور ایک ہزار سپاہیوں کے سربراہ کو نقیب کا نام دیا گیا یعنی کہ ایک نقیب کے نیچے دس قائد، سو عارف اور ایک ہزار سپاہی ہوتے تھے ۔
پولیس اور ڈاک کے محکمے
امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے تمام بڑے شاہراہوں پر ایک خاص اندازے کے مطابق پولیس تھانے قائم کیے گئے اور عین اسی طرح بڑے شہروں اور شاہراہوں پر ڈاک خانے بھی قائم کیے گئے۔ محکمہ ڈاک کے ملازمین کو تیز رفتار گھوڑے دیئے گئے جو تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ خطوط منتقل کرتے۔
ریسٹ ہاؤسز
اندازہ لگا لیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے عمر کی ریاست میں اگر آپ تین ہزار کلومیٹر دور بھی جاتے اور آپ کے جیب میں خوراک اور رہائش کے اخراجات کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا تو آپ کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ بڑے شہروں میں مسافروں کے لیے لنگر خانے اور سرائے قائم کیے گئے تھے جبکہ شاہراؤں پر ریسٹ ہاؤسز تعمیر کیے گئے تھے۔ ان سرائے اور ریسٹ ہاؤسز میں مسافروں کو یومیہ تین مرتبہ کھانا دیا جاتا تھا جبکہ رات گزارنے کی سہولت الگ سے موجود تھی۔
آمدن کے ذرائع
آمدن کے پانچ بڑے ذرائع مال غنیمت، خراج، زکوۃ، عشر اور جزیہ تھیں۔ چونکہ آپ کے زمانے میں دنیا کے دو سپر پاور میں سے ایک فارس کو تو مکمل طور پر فتح کیا گیا جبکہ دوسری عالمی طاقت روم سے کئی صوبے قبضہ میں لیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے طور پر اتنی بڑی دولت مل چکی کہ پوری ریاست میں ایک شخص بھی زکوۃ کا مستحق باقی نہ رہا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کی زکوۃ کی رقم کو بیت المال میں جمع کیا جاتا تھا۔ کئی ریاستوں کو فتح کیا گیا تو ان ریاستوں کے سربراہان نے خراج (سالانہ ٹیکس) دینے کا وعدہ کیا۔ غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاتا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کی طرح ریاست کی تمام سہولتوں سے مستفید ہو رہے تھے۔ عشر کو ہم عرف عام میں فصل کی زکوۃ کہتے ہیں۔
سالانہ بجٹ میں پیسوں کی جو بچت ہوتی تو ان کو واپس خزانے میں جمع کرنے کے بجائے عوام کے درمیان تقسیم کیا جاتا۔
دنیا کی سب سے پہلی فلاحی ریاست
فلاحی ریاست وہ ریاست ہوتی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ آپ نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنشن دینے کا نظام رائج کیا۔ بیواؤں اور یتیموں کے لیے الگ سے وظیفہ مقرر کیا گیا تھا۔ لاوارث بچوں کی مکمل کفالت ریاست کی ذمہ داری تھی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک الاؤنس دیا جاتا تھا۔ آبپاشی کے لیے جدید نہریں نکالی گئی۔
بیت المقدس کو فتح کیا گیا تو یہودیوں نے گورنر شام امیر معاویہ کو شہر کی چابیاں دینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کے مطابق ہماری کتابوں میں جس شخص کی نشانیاں ذکر کی گئی ہیں وہ آپ میں موجود نہیں ہیں۔ معاویہ نے امیر المومنین کو مطلع کیا تو آپ اپنے ایک غلام اور ایک اونٹ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ راستے میں باری باری اونٹ پر سواری کا فیصلہ کیا۔ جب بیت المقدس پہنچے تو اونٹ پر سواری کی باری غلام کی تھی۔ غلام نے ہزارہا آپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں بخوشی آپ کو اپنی باری دے رہا ہوں کیونکہ آگے یہودی رہنما آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ اور پھر دنیا نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس زمانے کے سب سے طاقتور بادشاہ دنیا کے اہم ترین شہر (بیت المقدس) کو فتح کرنے کے بعد اس شان سے شہر میں داخل ہوئے کہ اونٹ پر غلام بیٹھا تھا اور 22 لاکھ مربع میل کے حکمران اونٹ کے ساتھ پیدل چل رہے تھے اور ان کی پھٹی ہوئی قمیض میں پیوند دور سے نظر آ رہے تھے ۔
کیا عمر کی شان کو سمجھنے کے لیے یہ ناکافی ہے؟
تصوف کسے کہتے ہیں؟ تصوف کی دنیا کے بارے میں جانیے
علم، علم کی شاخیں، علماء کی اقسام
برطانوی سامراجیت: انگریزوں نے کس طرح ہندوستان پر حکومت کی