مصنف: عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر،بیوٹیوبر)
علم عقل کا ثمر ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ “کیا علم والے اور جھل والے برابر ہوتے ہیں” اب علم کی جتنی بھی خوبیاں بیان کی جائے وہ کم ہیں مگر اگر کوئی ایسا شخص ہو جو علم والا ہو لیکن اپنی حاصل کردہ علم پر عمل کرنے والا نہ ہو یا ان کی نیت میں اخلاص نہ ہو یا معاملات اور معاشرت میں جاہلوں جیسا ہو، تو پھر اس شخص کو علم نے کیا فائدہ دیا، ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔ اس بلاگ میں علمائے حق اور علمائے سؤ کی نشانیاں بیان کی جاتی ہے۔
علمائے حق کی نشانیاں
علمائے حق میں دنیا کی طلب نہیں ہوتی یعنی کہ وہ مال کے حریص نہیں ہوتے۔ وہ حرام مال کی کمائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ دنیا اور مال کو ضرورت کی حد تک دیکھتے ہیں۔
ان کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہوتا وہ جو بیان کرتے ہیں ان پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور جن پر انکی عمل نہیں ہوتی وہ کسی دوسرے کے سامنے بیان ہی نہیں کرتے یعنی وہ باعمل علم ہوتے ہیں۔
وہ علم کی وصول اور ان کی درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بناتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی معاشرتی ذمہ داریاں بھی پوری کرتے ہیں۔ وہ اعتدال پسند ہوتے ہیں اور متوازن زندگی گزارتے ہیں۔
حق علماء درباری نہیں ہوتے وہ اہل اقتدار سے دور رہتے ہیں کیونکہ اہل اقتدار کے ساتھ رہنے پر اپنی نعمتیں حقیر لگنے لگتی ہیں، ان کی برائیوں پر چپ رہنا پڑتا ہے۔ ان کی جھوٹی تعریفیں اور خوشامد کرنا پڑتی ہے، حکمرانوں سے امید رکھنے کی عادت بن جاتی ہے اور جو ملتا ہے وہ حرام ہوتا ہے۔

علمائے حق فتویٰ دینے میں انتہائی محتاط ہوتے ہیں ویسے بھی وہ پہلے تولتے ہیں اور پھر بولتے ہیں، کبھی بھی اپنی علم پر ناز نہیں کرتے اور جس بات کی علم نہ ہو تو برملا اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہیں۔
باعمل علماء ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم بھی حاصل کرتے ہیں وہ باطنی اور روحانی طور پر بھی آگے جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ وہ تواضع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ان کے دل میں خوف خدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ “انسانوں میں سے خدا تعالیٰ سے ڈرنے والے لوگ علماء ہوتے ہیں”۔ وہ خدا پر کامل یقین اور بھروسہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایمان خوف اور امید کے درمیان کی چیز ہے۔
اہل حق عالموں کی ایک نشانی ہے کہ وہ صرف کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ تحقیق بھی کرتے ہیں۔
وہ تارک بدعت ہوتے ہیں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے ہیں۔
علمائے سؤ
علمائے سو یعنی بد عالم، برے عالم۔ اوپر بیان کی گئی علمائے حق کی نشانیوں کو اگر الٹی نظر سے دیکھا جائے تو وہ علماء سوء کی نشانیاں بن جاتی ہیں یعنی یہ لوگ دنیا دار، مال کے حریص، بے ضرورت فتوے جاری کرنے والے، اپنے آپ کو بہت بڑے عالم کہنے والے، خود پسند اور خود پرست، متکبر اور بدعتی ہوتے ہیں، اسی طرح اس کے دل میں خوف خدا نہیں ہوتا اور روحانی طور پر کمزور لوگ ہوتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ عالم کا فتنہ یہ ہے کہ بولنا اس کے نزدیک سننے سے بہتر ہوتا ہے، تقریر میں زینت اور زیادتی کرتا ہے، لیکن مقرر غلطی سے محفوظ نہیں رہتا اور خاموشی میں سلامتی ہے۔

علمائے سؤ کے اقسام
یہ بے عمل عالم اپنے علم کو ذخیرہ کرکے دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچاتے۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے علم کو مالداروں کے لئے خاص کر دیتے ہیں۔
ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کے اقوال کو اس نیت سے نقل کرتے ہیں کہ لوگ ان کی وسعت علم سے مرغوب ہو جائے۔
یہ صاحبان خود کو علم کے بادشاہ تصور کرتے ہیں اگر ان پر اعتراض کی جائے یا ان کی اعزاز میں تساہل برتی جائے تو وہ غضب ناک ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے علم کو اپنی فضیلت اور شہرت و عظمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یہ حضرات خود پرستی اور تکبر کی وجہ سے سے بیان کے دوران سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں اور اگر ان کو کوئی نصیحت کریں تو اسے اپنا توہین سمجھتے ہیں۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ اوپر بیان کی جانے والی نشانیوں میں سے اگر ایک بھی کسی عالم کے اندر ہو تو وہ جہنمی ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے خدا کی طرف سے الگ الگ جہنم کا طبقہ مقرر کیا گیا ہے۔
تبلیغی جماعت کی تاریخ، نصاب اور کام کرنے کا طریقہ
علم، علم کی شاخیں، علماء کی اقسام