مصنف: عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر )
امام غزالی
امام غزالی کو اگر ہم دنیائے اسلام کے سب سے بڑے فلسفی کا نام دے دیں تو غلط نہیں ہوگا۔ آپ 1058 میں ایران میں پیدا ہوئے تھے آپ نے کئی کتابیں لکھی تھیں جو تمام کے تمام علم کی شکار ہیں مگر چار جلدوں پر مشتمل “احیاء العلوم” کا ثانی نہیں ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ایک مرتبہ ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر دنیا سے تمام علوم ختم ہو جائے اور صرف احیاء العلوم باقی رہ جائے تو میں اس کتاب سے تمام علوم کو ازسر نو زندہ کر سکتا ہوں اسی طرح ایک بزرگ نے فرمایا علم کے لحاظ سے احیاء العلوم قرآن مجید کے لگ بھگ ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کے ایک باب میں آپ نے دنیا میں موجود تمام علوم کو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہاں اس پر مختصر بحث کی جاتی ہے۔
علم کی فضیلت
“کیا علم والے اور جھل والے برابر ہوتے ہیں” (القرآن) ایمان ننگا ہے اس کا لباس تقوی ہے، اس کی زینت حیا ہے، اور اس کا ثمرہ علم ہے۔ انسان اور جانور میں فرق کرنے والی چیز علم ہے۔ ہمیں کوئی بتلا دے کہ جس کو علم نہیں ملی اس کو کیا ملا اور جس کو علم ملی اس کو کیا نہیں ملا۔ علم خزانہ ہے اور اس کی کنجیاں سوال ہیں۔ علم دل کی عبادت، باطن کی اصلاح اور قرب الہی کا نام ہے۔ علم کی حصول کے لحاظ سے دو طرح کے لوگ ہیں جن پر افسوس کیا جاسکتا ہے ایک وہ جو علم حاصل کرتا ہے مگر اس کی اہمیت سے واقف نہیں دوسرا وہ جو علم کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن حاصل نہیں کرتا۔
علم کی شاخیں
فرض عین
امام غزالی نے سب سے پہلے علوم کو فرض عین اور فرض کفایہ میں تقسیم کر دیا ہے یہ وہ علم ہے جن کے حصول سے مسلمان بندہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا قابل ہوجاتا ہے۔ مثلاً کھانے، سونے، گفتگو، سفر، کاروبار، خوشی، غم، عبادات وغیرہ کے آداب سے واقف ہونا۔

فرض کفایہ
فرض کفایہ وہ علوم ہیں جن میں علم طب، حساب، سیاسیات، معاشیات، قانون، زراعت، انجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں یعنی کے اگر کسی گاؤں یا شہر میں ایک ڈاکٹر بھی نہیں ہو تو لوگوں کو کتنی مشکل پیش ہوگی تو آبادی کی تناسب سے یہ تمام پیشہ ور اور ماہرین موجود ہونے چاہیے۔
شرعی علوم
وہ علوم جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہنچ چکی ہیں، اس میں عقل، سماع یا تجربے کا کوئی دخل نہیں ہے شرعی علوم کہلاتے ہیں۔ شرعی علوم کی چار بنیادی اقسام ہیں قرآن، حدیث، اجماع اور آثار صحابہ۔
غیر شرعی علوم
غیر شرعی علوم کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس میں پہلی قسم پسندیدہ علوم کی ہیں جو بندہ اور معاشرہ دونوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر علم حاصل کرنے کے بعد استاد، جج، ڈاکٹر وغیرہ کے حیثیت سے کام کرنا۔ دوسری قسم ناپسندیدہ علوم کی ہیں۔ یہ وہ تمام علوم ہیں جن سے حاصل کنندہ کو تو کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے مگر ان کا فائدہ معاشرے کے نقصان کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یعنی وہ اپنی علم دوسروں کو ضرر پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے مثلا جادوگری کی علم، علم نجوم، شعبدہ بازی وغیرہ۔ اسلام میں ان علوم کی حصول کی مذمت کی گئی ہے۔ اس درجہ بندی میں تیسری قسم مباح علوم کی ہیں یہ وہ علوم ہوتے ہیں جو ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں یعنی نہ اس علم کی حصول اور استعمال میں کوئی ثواب ہے نہ گناہ مثلاً شعر و شاعری۔
علم مکاشفہ اور علم معاملہ
مندرجہ بالا تمام علوم، علومِ ظاہری ہیں اس کے علاوہ علم کی ایک قسم علم باطن ہے جسے علم مکاشفہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل دوسری علوم کی غایت اور منتہا ہے اس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کی صداقت کو تسلیم کیا جائے۔ یہ روحانیت تصوف، تزکیہ نفس اور عشق حقیقی سے متعلق علم ہے۔ علم مکاشفہ کے ساتھ دوسری قسم علم معاملہ ہے، یہ صبر، شکر، سخاوت جیسے اچھے اعمال اور حسد، تکبر، بخل وغیرہ بد اعمال سے متعلق علم ہے۔
فلسفہ کی علم
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق فلسفہ حساب، جیومیٹری، منطق، الہیات اور طبیعات پر مشتمل ہے۔

عالم کون ہوتا ہے
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بندہ اس وقت عالم ہوتا ہے جب وہ اپنی حاصل کردہ علم میں محقق ہو جائے، دوسری علوم کے لیے کوشاں رہے اور جو بات نہیں جانتا اس میں غور و فکر کریں۔
علماء کی اقسام
علماء کی تین اقسام ہیں دنیادار، دین دار اور تیسری قسم وہ علماء جو دوسروں کے لیے خیر کا سبب ہو لیکن عوامی مقبولیت اور شہرت کی وجہ سے اپنے لیے باعث ہلاکت ہو۔ اس طرح علم کی بابت میں آدمی کی چار حالتیں ہوتی ہیں۔ پہلی حالت طالب علمی کا زمانہ ہے جب وہ علم حاصل کرتا ہے۔ دوسری حالت جب وہ علم پر عبور حاصل کریں یہاں تک کہ سوال کی ضرورت بھی پیش نہ آئے اسی حالت میں آدمی عالم کہلاتا ہے۔ تیسری حالت میں وہ اپنی حاصل کردہ علم میں تحقیق اور فکر کرتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جبکہ چوتھی حالت میں وہ اپنی علم کے راستے اور ذریعے دوسرے لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
علماء حق اور علماء سوء
علماء حق تو اپنی حاصل کردہ علم پر خدا کی رضا کے لیے عمل کرتے ہیں اور مخلوقِ خدا کے لیے باعث رحمت ہوتے ہیں۔ جبکہ علماء سوء علم کے باوجود ان راستوں پر چلتے ہیں جو خدا کی ناراضگی کی سبب ہوتی ہے اور انجام کے لحاظ سے ان کے لیے باعث ہلاکت ہوتی ہے۔
علمائے حق اور علمائے سؤ میں کیا فرق ہے؟
بے وقوف کون ہوتے ہیں؟ بے وقوفوں کی نشانیاں