علامہ اقبال کی سیاسی شاعری

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

دراصل علامہ اقبال اپنے زمانے میں اسلام کے ایک غیر رسمی ترجمان کی حیثیت اختیار کرچکے تھے ۔ آپ نے کئی سیاسی نظریات کا اسلام کی روشنی میں جائزہ لیا اور پھر اپنی رائے قائم کی۔ آپ کے سیاسی اشعار آج بھی ہمارے لئے رہنمائی کا ایک سامان ہے۔ آپ کے نظریات کا جائزہ لے کر ہمیں آپ کی خیالات میں تبدیلی واضح نظر آتی ہے کہ آپ لڑکپن میں ہندوستانی قومیت پر فخر کرتے رہے تو پی ایچ ڈی کے خاطر یورپ میں کئی سال گزار کر پہلے کٹر مسلم قوم پرست اور بعد میں معتدل بن چکے ۔

نظریہ انفرادیت و نظریہ اجتماعیت

نظریہ انفرادیت کے مطابق فرد معاشرے اور قوم کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ نظریہ اجتماعیت اس کے مقابلے میں معاشرے اور قوم کو زیادہ اہمیت دیتی ہے، یعنی کہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے متضاد اور انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔

دونوں نظریات کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ علامہ اقبال نے اپنے دو اشعار میں بہت خوب صورتی سے اسلام کا موقف بیان کیا ہے کہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یعنی کہ یہ اقوام تو افراد سے بنتی ہیں تو بھلا فرد کیسے غیر اہم ہو سکتا ہے۔ دوسرے شعر میں کہتے ہیں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

کہ دراصل فرد کی اہمیت قوم ہی کی وجہ سے ہے اگر وہ قوم سے ناطہ توڑ ديں تو ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو فرد اپنی جگہ پر اہم ہے اور قوم اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی پر یقین رکھتا ہے، یہاں بھی دو انتہاؤں کے درمیان درمیانی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔

سیکولر ازم

سیکولریزم (لادینیت) وہ نظریہ ہے جن کے مطابق مذہب اور سیاست کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیاست اجتماعی عمل ہونے کے ناطے برتر جبکہ مذہب انفرادی عمل ہونے کی وجہ سے ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر اقبال اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

جلال بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

جمہوریت

موجودہ صدی کی طرح پچھلی صدی میں بھی مغرب کی طرف سے جمہوریت کو ایک ماڈل سیاسی نظام کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ۔ علامہ اقبال کا جمہوری نظام سے یہ گلہ تھا کہ یہاں الیکشن میں خواندہ و ناخواندہ، عالم وجاہل، اچھے و بُرے لوگوں کے ووٹوں کی حیثیت مساوی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ کہتے ہیں

اس راز کو ایک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

کیپٹل ازم اور کمیونزم

سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی بات آجائے تو اقبال بیچ کے راستے (اسلامی معاشی نظام) کو بہتر تصور کرتے ہیں اور فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک طویل نظم میں کچھ اس طرح گویا ہے کہ

اٹھو میرے دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

جوانوں کو خطاب

اقبال کا زمانہ ہندوستان کی غلامی اور مسلمانوں کے زوال کا زمانہ تھا۔ مسلمان مایوسی کے ایک دور میں جی رہے تھے ۔ اقبال نوجوانوں کو اپنے اشعار کے ذریعے بیدار ہونے، علم حاصل کرنے اور عمل کے میدان میں کودنے کا درس دیتے رہے ۔ نمونے کے طور پر یہ شعر پیش کیے جا رہے ہیں۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

نہیں ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے

امت مسلمه کے درمیان اتحاد کا داعی

علامہ اقبال اندھی تقلید و قوم پرستی کے خلاف تھے ۔ آپ زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ مشت و گریباں ہونے کو امت محمدیہ کے درمیاں نااتفاقی کا ایک وجہ قرار دے رہے ہیں اور اپنے دل کے غم کو کچھ اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ

حرم پاک بھی، خدا بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی کہ ہوتے مسلمان بھی ایک

ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
کہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

مغربی دنیا کے بارے میں

اقبال مغربی معاشرے کی خوبیوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر وہاں کے خامیوں سے بھی لا علم نہیں ۔

خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھیے گرتا ہے آخر کس کے جھولی میں فرنگ

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبیر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و ملت کے خلاف

دنیا کی تاریخ ، ساتواں حصہ ؛ انیسویں صدی پر ایک نظر

خوشحال خان خٹک کی اخلاقی، قومی، مذہبی، سیاسی اور عشقیہ شاعری

مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *