مصنف : عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
وہ یہودی جو دو صدی پہلے غلاموں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اتنے طاقتور اور مضبوط حیثیت کے حامل بن چکے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں کو معاشی امداد فراہم کرکے ان سے فلسطین کی سرزمین پر آباد ہونے کا اجازت نامہ حاصل کرگئے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں یہی حربہ آزما کر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر گئے۔ اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق فلسطین کی سرزمین کو دو حصوں میں مساوی طور پر تقسیم کر کے ایک حصہ عربوں اور دوسرا حصہ یہودیوں کو دیا گیا۔ عربوں نے اس منصوبے کو ماننے سے انکار کر دیا جبکہ یہودیوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ یوں 1948 میں مشرق وسطیٰ کے اندر فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے نام سے یہودیوں کی یہ ریاست وجود میں آئی۔ اگلے 25 برس میں ہمسایہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں لڑی گئیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
پہلی جنگ 1948
اسرائیل کو اپنے قیام کے ساتھ ہی اس جنگ کا سامنا کرنا پڑا جب عراق، اردن، مصر، شام اور سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا مگر اسرائیل نے تقسیم کے منصوبے کے تحت حاصل کیے گئے اپنے علاقے کا نہ صرف کامیابی سے دفاع کیا بلکہ اردن اور مصر سے عرب فلسطین کا 60 فیصد علاقہ بھی قبضہ کیا۔ یہ جنگ نو مہینے تک جاری رہا تھا اور دونوں طرف سے تقریبا چھ سے سات ہزار تک لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔
دوسری جنگ 1956
اس جنگ کو نہر سوئز بحران کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ یہ نہر تھا۔ قصہ کچھ اس طرح تھا کہ اکتوبر 1956 میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا کہ حال ہی میں مصری صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے حکومتی تحویل میں لیے گئے نہر سویز کو مغربی تجارت کے لیے کھول دیا جائے۔ اسرائیل کے حملے کے ساتھ ہی برطانیہ اور فرانس کے افواج بھی مصر میں داخل ہوئیں۔ نو دن تک جنگ لڑیں گئی۔ اگر چہ جانی و مالی نقصان کے لحاظ سے مصر خسارے میں رہا مگر امریکہ روس اور اقوام متحدہ کے دباؤ کی وجہ سے جب تینوں ممالک کو مصر سے انخلا پر مجبور کیا گیا تو سیاسی طور پر مصر فاتح ٹھہرا اور جمال عبدالناصر مزید مضبوط بن کر سامنے آئے۔

تیسری جنگ 1967
اس جنگ کو چھ روزہ جنگ یا جون جنگ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جون 1967 میں چھ روز تک لڑیں گئی۔ اسرائیل اور عرب اتحاد کے درمیان یہ جنگ اسرائیل کی فیصلہ کن جیت پر ختم ہوئی اور اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینا، شام سے گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کو قبضہ میں لے لیا۔ جزیرہ نما سینا اور گولان کی پہاڑیاں بعد میں واپس کر دی گئی اس جنگ میں عربوں کی شکست کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے ایک ہزار سے کم فوجی ہلاک ہوئے جبکہ عربوں کی پندرہ سے بیس ہزار تک فوجی جنگ کا ایندھن بنے۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل کے 46 جب کہ عربوں کے 450 سے زائد لڑاکا طیارے تباہ ہو چکے۔ عالم اسلام کے لئے یہ جنگ ایک پریشان کن خبر کے طور پر سامنے آئی کیونکہ اسی جنگ کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔
چوتھی جنگ 1973
اسی جنگ کی کہانی بھی گذشتہ جنگوں سے الگ نہیں تھی۔ اسرائیل مزید طاقتور بن کر سامنے آیا۔ جنہوں نے شام اور مصر سے مزید علاقہ قبضہ کیا ہاں اتنا ضرور ہے کہ مصر نے بھی نہر سویز کے مشرق کی طرف کچھ علاقہ قبضے میں لے لیا۔
عربوں نے اسرائیل کی حمایتیوں سے کیسے بدلہ لیا
عربوں نے اس جنگ کا بدلہ کچھ الگ ہی انداز سے لے لیا کہ ان تمام ممالک پر جو جنگوں میں اسرائیل کے حمایتی اور عربوں کے مخالف تھیں ان کو تیل کی فراہمی بند کر دی گئی۔ تیل کی اس بندش کی وجہ سے مغربی ممالک میں پہیہ جام ہڑتال جیسی صورتحال پیدا ہوئی۔ تعلیمی اداروں، ٹرانسپورٹ وغیرہ کو تیل کی کمی کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ فوراً ان تمام ممالک کے سربراہان نے عرب ممالک کے دورے شروع کر دیے اور اس کے بعد دنیا کے تقریبا تمام ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی میں عربوں کو نمایاں جگہ فراہم کی۔
ان چار عرب اسرائیل جنگوں کے بعد اگرچہ ان ممالک کے درمیان کوئی بڑی جنگ تو نہیں لڑیں گئی کیونکہ عربوں کو اپنی کمزور دفاع اور اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہو چکا۔ دوسری طرف اسرائیل نے ان حالات کا خوب فائدہ اٹھایا، 1982 اور 2006 میں دو مرتبہ لبنان پر حملے کئے۔ 1981 میں عراق کے ایٹمی پلانٹ پر بمباری کرکے ان کو راکھ میں تبدیل کر دیا اور عراق صرف تماشا دیکھتا رہ گیا۔ بعد میں اسی تجربے کے تحت شام کے جوہری پلانٹ کو بھی تباہ کردیا گیا۔

2011 سے جاری شامی جنگ کے دوران بھی اسرائیل نے لاتعداد مرتبہ شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ہر سال یا دو کے وقفے سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا جاتا ہے اور ان پر وحشیانہ بمباری کرکے ان پر قیامت ڈھادی جاتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کے اندر عبادت کے لئے نہیں جانے دیا جاتا۔
ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ 2020-21 میں تین اہم عرب ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے۔ مصر اور اردن وغیرہ کئی عرب ممالک تو پہلے سے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ یعنی کہ تلخ ماضی کو بھلا کر شیریں مستقبل بنانے کی طرف سفر کا آغاز کیا گیا۔ اصل میں ممالک کے درمیان تعلقات میں مفادات کی اہمیت ہوتی ہے، ان مفادات کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عربوں کی طرف سے فلسطینیوں اور بیت المقدس سے متعلق باتوں اور وعدوں کو کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
نوٹ: یہودیوں کی تاریخ اور انکی مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کے بارے میں یہ بلاگ پڑھیے۔
يہودیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ
یہودی اور اسلام، یہودیوں کی تاریخ کا دوسرا حصہ