مصنف : عامر ظہیر (استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
انسان اور شیطان ایک دوسرے کے حریف ہے۔ بعض مغربی فلسفیوں نے شیطان اور خدا کو ایک دوسرے کا حریف بتایا ہے مگر وہ بات ٹھیک نہیں ہے کیونکہ خدا خالق ہے جبکہ انسان اور شیطان دونوں مخلوق ہیں۔ شیطان نے تو انسان کو گمراہ کرنے کے لئے خدا سے مہلت مانگی ہے، یوں اب انسان اور شیطان کا آپس میں مقابلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیطان کے پاس ستر ہزار نورانی جھالیں ہیں جس میں انسان اس وجہ سے پھنس جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے، نیکی کا کام کر رہا ہے۔ امام ابن جوزی نے “تلبیس ابلیس” کے نام سے ایک پوری کتاب لکھ ڈالی ہے کہ شیطان کن کن طریقوں سے انسان کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے مثلاً ایک نعت خواں صرف نعتیں پڑھنے یا قاری صرف خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کو مکمل دین سمجھتا ہے جبکہ دین کے کئی لازمی امور اس وجہ سے ان سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس بلاگ میں ان انسانی حالتوں کا ذکر کیا جائے گا جن میں شیطان ہم پر حملہ آور ہوتا ہے۔
غصہ
غصہ انسانی جذبات کا ایک اہم عنصر ہے۔ برے کام کو دیکھ کر غصہ آنا بھی چاہیے مگر بعض لوگ غصے کی کیفیت میں مکمل طور پر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ پاگل پن کی حد تک غصہ کی یہ حالت شیطان کے لیے حملہ کرنے کا سب سے بہترین موقع ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس شخص کا ریموٹ کنٹرول مکمل طور پر شیطان کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور پھر نتیجہ کبھی قتل وقتال، کبھی خطرناک لڑائی، کبھی بزرگوں کی بےعزتی، کبھی والدین کی نافرمانی اور کبھی بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں اپنے خاندان کو تباہ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔
جنگ
غصے کے علاوہ بھی جنگ کے بہت سارے وجوہات ہوتے ہیں مگر غصے اور جنگ کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہے۔ جنگ کے دوران جذباتی لوگ بعض ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جن پر بعد میں بہت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً اپنے دوستوں کے ساتھ معمولی سی بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آنا اور پھر لڑائی کے دوران تمام حدیں پار کرنا۔

شہوت
اسلام کے مطابق اگر مسلمان بندہ اپنی زبان اور شرمگاہ کے شر سے محفوظ رہ سکے تو وہ جنتی ہے۔ شہوت کے ہاتھوں بے قابو ہو کر انسان فحش گفتگو، فحش ویڈیوز و تصاویر دیکھنے، خود لذتی، زنا، یہاں تک کہ بچوں کے جنسی استحصال اور اس استحصال کے بعد قتل و قتال کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔
نامحرم عورت یا مرد
کہا جاتا ہے کہ جب ایک نامحرم مرد اور ایک عورت ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو تیسرا ان کے پاس شیطان ہوتا ہے اور یہی شیطان کے لیے حملے کرنے کا نادر موقع ہوتا ہے۔
عشق مجازی
علامہ ابن جوزی کے مشہور کتاب “عشق مجازی کی تباہ کاریاں” کا خلاصہ یہ ہے کہ عشق مجازی بذات خود گناہ نہیں ہے مگر ان سے خطرناک گناہوں کی طرف راستے چلتے ہیں جیسا کہ ہمارے آنکھوں کے سامنے عشق و محبت کی وجہ سے اکثر نوجوان اپنے والدین کی نافرمانی، خودکشی، پسند کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے کسی بھی شخص کی جان لینے پر اتر آتے ہیں۔ دوسرا عشق مجازی کی بنیاد خواہش پر ہوتا ہے جو انسان کو زنا کی حد تک بھی لے جاتا ہے۔
دولت کی حرص
دولت کی محبت و حرص کی وجہ سے بھائی بھائی کا دشمن ہے۔ والدین معاشی حیثیت کی بنیاد پر اپنے ہی اولاد کے درمیان امتیاز سے کام لیتے ہیں۔ بھائی بہن کو اور والدین بیٹی کو جائیداد میں اپنے حصے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیادہ کمانے کی یہ چاہت انسان کو کرپشن، رشوت اور حرام کمانے کے راستے پر ڈالتا ہے۔
فقر کا خوف
ایک شخص دو وجوہات کی وجہ سے کنجوس ہوتا ہے پہلا دولت کی محبت تو دوسرا غربت کا خوف۔ اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ بخیل بندہ کسی کے کام نہیں آتا۔ شیطان خود کہتا ہے کہ سخی گناہگار اور کنجوس عبادت گزار میں میرا پسندیدہ موخرالذکر ہے۔
مذہبی عصبیت اور فرقہ واریت
اسلام نے ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ بہترین سلوک کا حکم دیا ہے۔ ہمارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت اللعالمین تھے۔ مگر بعد میں تنگ نظری کی وجہ سے غیر مسلموں کو واجب القتل اور مسلمانوں کے اندر مخالف فرقوں سے تعلق رکھنے والے کو کافر قرار دینے کا سلسلہ جاری ہوا۔ یوں شیطان کے زیر سرپرستی نفرت کا یہ کاروبار خوب پھلتا پھولتا رہا جس سے اسلام اور مسلم امت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔
شہرت کی بھوک
مشہور ہونے کی بیماری انسان سے کیا کیا کام نہیں کرواتی۔ بڑے اور کامیاب لوگوں نے کبھی بھی اپنا کام شہرت کے لیے نہیں کیا۔ اگر آپ کا کام شہرت کے حامل ہے تو خود بخود مشہور ہو جاؤ گے۔ آج کی دنیا میں مشہور شخصیات کے پیچھے بھاگنا، ان کے ساتھ تصاویر بنوانا، غریب لوگوں کی مدد کرتے وقت ویڈیو ریکارڈ کروانا وغیرہ شہرت ہی کے لیے ہیں۔ یہ سب ریاکاری ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ ریاکار جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

لوگوں سے طمع رکھنا
خدا کے بجائے لوگوں سے مرادیں پوری ہونے کی توقع رکھنے میں شرک کا عنصر پایا جاتا ہے۔ لوگوں سے طمع رکھنے والا بندہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور جب وہاں سے کچھ نہیں ملتا تو الٹا جن سے توقع رکھی جاتی ہے ان کے پیٹ پیچھے گالیاں دی جاتی ہے۔
ہر کام میں جلد بازی کرنا
جلدباز انسان شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ جلد بازی کی وجہ سے اکثر ٹھیک کام خراب ہو جاتا ہے جن سے کبھی دنیاوی، تو کبھی دونوں جہانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ تو شیطان اور کیا چاہتا ہے۔
بدگمانی
مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ بدگمانی کی جگہ سے دور رہو کیونکہ بدگمانی رشتوں اور تعلقات کو خراب کر دیتی ہے۔ بدگمانی پیدا ہونے کے بعد شیطان کا کام آسان ہو جاتا ہے۔
جب عوام فلسفیانہ بحث شروع کریں
عوام کے درمیان فلسفیانہ بحث کی وجہ سے انکی زبانیں اکثر پھسل جاتی ہے یہاں تک کہ وہ دین، دین کے ارکان، ایمانیات، انبیاء، خدا اور خدا کی کتابوں پر بحث کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہوتا اور وہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ ان سے کفر تک پہنچنے کا خوف ہوتا ہے۔ میرے خیال سے تو اس جاہلانہ بحث کے دوران شیطان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہوگی۔
علمائے حق اور علمائے سؤ میں کیا فرق ہے؟
دوستی کی اہمیت، دوستوں کے اقسام اور حقوق
So informative