مصنف: عامر ظہیر ( استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
ایک سیاسی نظام کی بناوٹ کیسی ہوتی ہے۔ ان میں کون کون سے ادارے کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کے کام کرنے کا طریقہ اور ترتیب کیا ہوتا ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار کن باتوں پر ہوتا ہے۔ اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ سیاسی ماہرین نے ان نظاموں کے کئی نمونے پیش کیے ہیں جن میں سے ڈیوڈ ایسٹن اور جبریل ایلمنڈ کی طرف سے سیاسی نظام کا نمونہ سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اس نمونے کا ذکر کیا جائے گا۔
ترتیب کے لحاظ سے سیاسی نظام کے تین درجے ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ مطالبات بننے سے متعلق ہے۔ دوسرے درجے میں یہ مطالبات مجاز اداروں کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور وہ ان پر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ جبکہ تیسرے اور آخری درجے میں عوام ان حکومتی پالیسیوں پر اپنی فیڈ بیک دیتے ہیں اور دوبارہ سے نئے مطالبات کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور یوں سیاسی نظام کا یہ سائیکل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ذیل میں تفصیل پیش کیا جاتا ہے۔
پہلا درجہ
مطالبات سازی کا عمل
سیاسی نظام کی پہلی سیڑھی عوام کے مطالبات ہوتے ہیں۔ مطالبات ( اور ایسے مطالبات کہ حکومت یقینی طور پر ان پر کام کریں) ایک طویل پراسیس ہے۔ مطالبات سازی میں مندرجہ ذیل ادارے کام کرتے ہیں۔
مفاداتی گروہ
مفاداتی گروہ وہ گروہ ہوتے ہیں جن کے فوائد و نقصانات مشترکہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی شہر کے تاجروں یا دکانداروں کی تنظیم۔ ان گروہوں کا مطالبات سازی میں کردار کے حوالے سے ایک مطالبہ کو مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
مثال: ضلع بونیر کو ایک دو رویہ سڑک کے ذریعے براہِ راست موٹر وے کے ساتھ لنک دیا جائے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ مطالبہ کسی مفاداتی گروہ کی طرف سے پیش کیا گیا ہو یا مطالبہ عوام کی طرف سے پیش کیا گیا ہو مگر یہ تنظیم/تنظیمیں اپنی مفادات کی وجہ سے عوام کے ہم آواز بنے۔

پریشر گروپ
پریشر گروپ سیاسی جماعت نہیں ہوتی مگر اتنی طاقت رکھتی ہے کہ حکومت ان کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ سٹوڈنٹ فیڈریشن، لیبر یونین یا وکلاء تنظیمیں پریشر گروپ کی مثالیں ہیں۔
سیاسی پارٹیاں
سیاسی پارٹیاں ایک طرف عوام سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں تو دوسری طرف ان کے رہنما مجاز اداروں کے ارکان بھی ہوتے ہیں۔ سیاسی رہنما اپنے حلقوں کے عوام کے مطالبات کو اسمبلیوں کے اندر اور حکومت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
میڈیا
میڈیا کو حکومت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔ سیاسی نظام کے اندر میڈیا ڈبل کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ ایک طرف سے عوام کے مطالبات کو حکومت کے سامنے پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام کو حکومتی فیصلوں سے باخبر رکھتی ہے۔ موجودہ زمانے میں تو سوشل میڈیا کی فعالیت کی وجہ سے میڈیا کا کردار مزید اہمیت حاصل کر چکا ہے۔
دوسرا درجہ
پالیسی ساز ادارے
یہ سیاسی نظام کا دوسرا درجہ ہے۔ پالیسی ساز اداروں کو انگریزی میں Conversion Box کہا جاتا ہے جہاں عوامی مطالبات پالیسی سازوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ ادارے پارلیمنٹ ( قومی و صوبائی اسمبلیاں)، انتظامیہ (وفاقی و صوبائی کابینہ) اور عدلیہ (سپریم کورٹ سے زیریں عدالتوں تک) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے اندر عوامی مطالبات پر بحث کی جاتی ہے کچھ کو منظوری مل جاتی ہیں تو کچھ مسترد کیے جاتے ہیں۔ ان مطالبات کی منظوری یا نا منظوری حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں کی صورت میں میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاتے ہیں۔
فیڈ بیک
ظاہر ہے حکومتی فیصلوں پر عوام کے درمیان بحث کی جاتی ہے اور وہ ایک ردعمل دیتے ہیں جو مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ اس بحث و مباحثے کے نتیجے میں تازہ مطالبات سامنے آتے ہیں۔ اور پھر انہی تنظیموں اور میڈیا کے ذریعے ایک مرتبہ پھر حکومتی اداروں تک پہنچ کر فیصلوں کی صورت میں باہر آتے ہیں اور یوں یہ ایک جاری یعنی نہ رکنے والا عمل ہے۔
سیاسی نظام کی کامیابی اور ناکامی
سیاسی نظام کی کامیابی کا مکمل دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ عوام یعنی مفاد عامہ (قومی مفاد) کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ سادہ الفاظ میں اگر مفاداتی گروہ، پریشر گروپ، سیاسی جماعتیں اور بذات خود عوام سیاسی نظام کے اس تمام عمل (مطالبات سازی، مطالبات پیش کرنا، مطالبات کی منظوری/نا منظوری اور فیڈ بیک دینے میں) ملک و قوم کی مفاد کو مقدم رکھے تو یہ ایک کامیاب سیاسی نظام ہوگا اور اگر ہر فرد اور گروہ صرف اپنی مفادات کے پیچھے بھاگے تو نتیجہ سیاسی نظام کی ناکامی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یہی پہلی دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک میں بنیادی فرق ہے۔
حکومت کی ساخت اور کام ؛ پاکستانی سیاسی نظام کے آئینے میں
سپر پاور کی کہانی، زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک
تنہائی اچھی یا بری؟
Thanks 💕