مصنف: عامر ظہیر ( استاد، مصنف، بلاگر، یوٹیوبر)
تہذیبوں کی ابتدا سے پہلے کے زمانے میں جب دنیا میں نہ ریاست تھی نہ حکومت نہ آئین تھا اور نہ قانون تو انسانوں اور جانوروں کی زندگی میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا مثلاً کہ جب تک آگ دریافت نہیں ہوئی تھی تو انسان بھی کچی چیزوں کے کھانے پر مجبور تھے، کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے انسان بھی برہنہ پھر رہے تھے ہاں اتنا ضرور تھا کہ انسانوں کے ذہن میں شرم و حیا کا عنصر ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے ستر کو لمبے لمبے پتوں سے چھپا کے رکھتے تھے۔ جنگل کے اندر شیر صرف اسی وجہ سے بادشاہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے ورنہ اونٹ، ہاتھی اور زرافہ وغیرہ قدوقامت میں شیر سے بہت بڑے ہیں۔ یہی حال انسانوں کا تھا کہ طاقتور انسان، خاندان یا قبیلہ اپنے سے کمزوروں کو جنگ و جدل کے ذریعے قابو کرکے ایک مخصوص علاقے میں اپنی اجارہ داری قائم کرلیتے۔ یعنی کہ صرف ایک اصول کام کر رہا تھا اور وہ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” تھا۔
تہذیبوں سے سلطنتوں کے قیام تک
دنیا میں جنم لینے والے پہلی تہذیب موجودہ عراق کا میسوپوٹامیا تہذیب تھا جب لوگوں نے دریائے دجلا و فرات کے کنارے گاوٗں و شہر آباد کیے۔ بازار قائم ہوئے، کمیونٹی سنٹر میں لوگ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہونے لگیں، عبادت خانے قائم ہوئیں، رفتہ رفتہ مویشی پالنے کا رواج شروع ہوا۔ یعنی کہ انسانوں نے انسانوں کی طرح ایک مہذب اور منظم زندگی گزارنے کا سلسلہ شروع کیا۔ عراقی تہذیب کے بعد مصری تہذیب (دریائے نیل کے کنارے شہروں کا آباد ہونا) وادی سندھ کی تہذیب (دریائے سندھ کے کنارے موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے شہروں کا قیام) اور چینی تہذیب کا آغاز ہوا۔ ان تمام تہذیبوں میں فرعونوں کے زمانے میں مصر ایک طاقتور سلطنت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ کئی صدیوں بعد سائرس کے ہاتھوں فارس کی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی گئی جو اگلے تین صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط سلطنت تھی۔ اسی طرح زمانہ قدیم میں چار بادشاہوں سلیمان علیہ السلام، ذوالقرنین، بخت نصر اور نمرود نے پوری دنیا پر حکومت کی تھی۔

اصل میں سپر پاور کی کہانی یونانی بادشاہ سکندر اعظم کے زمانے سے شروع ہوتی ہے جب اس نے پوری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کر کے 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک قوم اپنے ملک سے باہر جا کر اتنے بڑے علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یونان نے فارس کو شکست دے کر ایک عالمی طاقت کی حیثیت حاصل کی۔ مگر یونانیوں کا عروج زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور فارس ایک مرتبہ پھر اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو واپس قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ یاد رہے کہ سلطنت فارس ایشیا اور افریقہ کے ایک بڑے حصے پر مشتمل تھا جبکہ اس کا دارالحکومت موجودہ ایران کے اندر تھا۔
روم و فارس کا مقابلہ
یورپ میں یونانیوں کے زوال کے بعد رومی زور پکڑنے لگے موجودہ اٹلی سے جنم لینے والی یہ چھوٹی سی ریاست جلد پورے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ترکی، مصر اور شام تک پھیل چکی اور پھر صدیوں تک دنیا روم اور فارس کے ان دو سلطنتوں کے درمیان بٹی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو خدا نے آپ پر سورۃ روم کے نام سے ایک سورت نازل فرمائی جن کی ابتدائی آیات میں خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روم کی فارس کے خلاف فتح کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ دراصل فارسی آتش پرست تھیں جبکہ رومی عیسائیت کے ماننے والے تھیں۔ دونوں کی جنگ میں کفار مکہ فارس کی حمایت کر رہے تھے جبکہ مسلمان رومیوں کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کی حمایتی تھے۔ اگر چہ جنگ میں فارس کا پلڑا بھاری تھا مگر کچھ سال بعد قرآن کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور روم جنگ جیت چکا۔
مسلمانوں (عرب، ترک، کرد، افغان وغیرہ) کا دور
وہی مسلمان جو کفار مکہ سے اپنی دفاع کے لیے مدینہ کے گرد (فاقوں کی وجہ سے) پیٹ کے ساتھ پتھر باندھے ہوئے خندق کھودنے پر مجبور تھے۔ اگلے بیس سال کے اندر اندر سپرپاور فارس کو فتح کر چکے تھے جب کہ دوسری عالمی طاقت روم سے بیت المقدس سمیت مصر اور شام کے صوبے چھین چکے تھے۔ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست پوری دنیا کی سب سے بڑی، مضبوط اور مالدار سلطنت میں تبدیل ہو چکی تھی جن کا ٹوٹل رقبہ حضرت عمر کے دور میں 22 لاکھ مربع میل سے امیر معاویہ کے دور میں 63 لاکھ مربع میل تک پہنچ چکا تھا۔ ایک صدی کے اندر اندر عربوں کی حکومت ایک طرف ہندوستان کے اندر سندھ تک پہنچ چکی تھی تو دوسری طرف یورپ کے اندر سپین، پرتگال اور جنوبی فرانس تک۔ مسلمانوں کی طاقت کا یہ زمانہ آٹھویں صدی عیسوی سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک تھا۔
یورپی طاقتوں کا عروج
سولہویں صدی عیسوی میں اسپین، پرتگال اور ہالینڈ کی اقوام براعظم شمالی و جنوبی امریکہ پہنچ چکے اور وہاں کے اصل باشندگان کو غلام بنا کر ان کے ممالک پر قابض ہوئیں۔ اگلی صدی میں برطانیہ اور فرانس نے بھی امریکہ کی راہ لی۔ برطانیہ اس مسابقت میں سب سے کامیاب ٹھہرا جو موجودہ امریکہ اور کینیڈا پر قابض ہو چکا تھا۔ علمی، سماجی و سیاسی انقلابات نے یورپ کو یکسر تبدیل کر دیا۔ سائنسی ایجادات نے ان کی دنیا پر غلبہ قائم کرنے کا راستہ آسان کر دیا۔ دوسری طرف مسلمان اور خلافت عثمانیہ روبہ زوال تھے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ ترکی کو “یورپ کا مرد بیمار” کہلایا جانے لگا۔ تقریبا تین صدیوں تک یہ یورپی طاقتیں باقی دنیا کو قبضہ کرنے کی اس دوڑ کی وجہ سے کسی نہ کسی جگہ حالت جنگ میں رہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کو دو تباہ کن جنگوں (پہلی اور دوسری جنگ عظیم) میں جونک دیا گیا اور جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ان یورپی طاقتوں میں کوئی بھی سپرپاور نہیں تھا بلکہ روس اور امریکا کی شکل میں دو نئے عالمی طاقتیں سامنے آچکی تھیں۔

سرد جنگ کا زمانہ
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی سرد جنگ کا آغاز ہوا ہوا یہ دنیا کے دو نئے سپر پاور روس اور امریکا کے درمیان واحد عالمی طاقت بننے کا ایک دوڑ تھا۔ دونوں ممالک بیرونی، سائنسی، ایٹمی اور خلائی محاذ پر ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما رہیں۔ پوری دنیا ان دو ہاتھیوں کے درمیان جنگ میں بٹی ہوئی تھی۔ جب 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور مسلم ممالک سے جھادیوں کو اکٹھا کر کے روس کے خلاف استعمال کیا گیا، نو سالہ جنگ نے روس کی معیشت کو تباہ کردیا۔ روس کے زیر قبضہ اقوام کے دلوں میں روسی فوج کی خوف مکمل طور پر ختم ہو چکی، یوں ان لوگوں نے روس سے آزادی کے لیے بندوق اٹھائی اور1991-92 میں 14 ممالک روس سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ روس اب سپرپاور نہیں تھا۔
امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر
انیس سو اکانوے میں برلن دیوار کو گرانے کے بعد امریکی صدر جارج بش سینئر نے اسی دیوار کے ملبے پر کھڑے ہوکر کمیونزم کے خاتمے، روس کی شکست اور امریکہ کے واحد عالمی طاقت بننے کا اعلان کیا۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ اب امریکا عالمی طاقت کے طور پر دنیا کا تن تنہا تھانیداری کرے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ امریکہ نے ایسا ہی کیا، جب 2001 میں افغانستان اور 2003 میں عراق پر چڑھائی کر دی گئی۔ پاکستان، صومالیہ، کینیا اور یمن میں ڈرون حملوں کے ذریعے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ 2011 میں لیبیا پر حملہ کرکے صدر قذافی کو قتل کر دیا گیا۔ اسی سال صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے کے لئے شام میں بھی مداخلت کردی گئی مگر وہاں کامیاب نہ ہوسکے۔

آج کی دنیا میں کون سپر پاور ہے
یک قطبی دنیا ایک مرتبہ کثیر قطبی بن چکی ہے یا بنتے جا رہی ہے۔ روس کا یوکرین پر یلغار اور امریکہ کا صرف تماشا دیکھنے سے یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ روس ایک مرتبہ پھر عالمی طاقت بن چکا ہے۔ چین کئی محاذ پر امریکا سے آگے نکل چکا ہے۔ جبکہ امریکہ بذات خود بھی سپر پاور کی حیثیت کی حامل ہے۔ انتہائی آسان الفاظ میں یہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے کے ہم پلّہ ہیں جبکہ دنیا کے مالدار ترین اور ترقی یافتہ براعظم یورپ کے تمام ممالک مل کر بھی دفاعی لحاظ سے ان میں سے ایک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
مندرجہ بالا تمام کہانی کی نچوڑ یہ ہے کہ اصل میں جو قوم بھی طاقتور بن چکی، سوائے چند کے تمام نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے کمزور ہمسایوں کو روند ڈالا ہے۔ منگولوں کے ہاتھوں کھوپڑیوں کے مینار بنانے سے امریکہ کے ہاتھوں بے گناہ افغانوں اور روس کے ہاتھوں بے گناہ یوکرینی شہریوں کے قتل عام تک اس کہانی کے تمام کردار قاتل، سفاک اور ظالم ثابت ہو چکے ہیں۔ دوسروں کی بربادی پر خوشی پانے کا یہ کھیل نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔
❤️❤️❤️
Much❤️Informative
Most Informative
❤️❤️
Pingback: سیاسی نظام کیا ہوتا ہے؟ سیاسی نظام کی بناوٹ اور کام – Aamir Zaheer