سپریم کورٹ فیصلوں کی تاریخ ؛ کچھ اچھے کچھ برے

مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)

کسی ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی ، وحدانی ہو یا وفاقی ۔ اس ملک میں جمہوریت ہو آمریت یا بادشاہت ، حکومت تین شعبوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے یعنی مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ۔ پاکستانی عدالتی نظام تین درجوں پر مشتمل ہے ملکی سطح پر سب سے بڑی عدالت ( اپیل کا آخری مقام ) سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جس کے بعد صوبائی سطح پر ہائی کورٹس ہیں جبکہ تیسرے درجے میں ذیلی عدالتیں ہیں جو ضلع اور تحصیل کے سطح پر قائم ہوتے ہیں ۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چند گنے چنے مگر انتہائی اہم اور تاریخی فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ غلط فیصلے صحیح فیصلوں کے مقابلے میں کئی زیادہ ہیں ۔ یہاں غلط فیصلوں سے مراد وہ فیصلے ہیں جو غیر قانونی ہو اور جس سے ملک و قوم کا نقصان ہوا ہو ۔ آئیے ان فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

مولوی تمیز الدین کیس 1954

مولوی تمیز الدین اس قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے جن کے اندر گورنر جنرل کو 1935 ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات میں کمی کے حوالے سے بحث جاری تھی ۔گورنر جنرل غلام محمد کو اپنی اختیارات میں کمی کی یہ سعی ناگوار گزری اور یوں اس نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر دیا ۔ سپیکر صاحب نے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تو ہائی کورٹ نے اسمبلی کو بحال کر دیا مگر گورنر جنرل نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیا ۔ جسٹس منیر نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر گورنر جنرل کے اختیارات کے اختیارات کے اس ناجائز استعمال کو جائز قرار دے دیا ۔ یہاں سے پاکستان میں اسمبلی توڑنے کی روایت کا آغاز ہوا ۔

ڈو سو کیس 1958

سات اکتوبر 1958 کو صدر سکندر مرزا نے 1956 کے آئین کو ختم کرا کے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا ۔ فوجی حکومت کے قیام کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کو ایجاد کرا کے مارشل لاء کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا ۔

یاد رہے کہ مندرجہ بالا دونوں غلط فیصلے ایک ہی جج نے دیے تھے جس نے بعد میں اپنی کتاب میں دونوں فیصلوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اعتراف کیا تھا ۔

یحییٰ خان کیس 1972

جنرل یحیٰی خان کے دور میں سیاسی بحران ، فوجی آپریشن اور پھر پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں ملک کے دو لخت ہونے کو جواز بنا کر ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا ۔ عدالت نے اس ہائی پروفائل کیس میں جنرل صاحب کو غاصب و ظالم قرار دے کر کچھ حد تک قوم کے اعتماد کو بحال کر دیا اگر چہ ان کو سزا پھر بھی نہ ملی۔

بھٹو کا عدالتی قتل

جنرل ضیاء نے تیسری مرتبہ ملک میں فوجی حکومت قائم کی تو وزیر اعظم بھٹو کو قتل کی سازش کے ایک مقدمے میں گرفتار کر دیا گیا اور 1979 میں ملک کے اس پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا جو آج بھی ملکی نظام انصاف پر ایک داغ ہے ۔

بے نظیر بھٹو کیس 1988

دراصل جنرل ضیاء نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد کیا تھا اور اب وہ ایک مرتبہ پھر ایسا ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ بے نظیر بھٹو اس شکایت کے ساتھ عدالت عظمیٰ پہنچی تو عدالت نے بی بی کی شکایت کو جائز قرار دے کر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا حکم جاری کر دیا ۔

نواز شریف کیس 1993

غلام اسحاق خان وہ صدر تھے جنہوں نے 58 ٹو بی کا استعمال کر کے دو مرتبہ قومی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا ۔ 1993 میں دوسری مرتبہ اسمبلی کو توڑ ڈالا تو وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کیا اور سپریم کورٹ نے اسمبلی بحالی کے ذریعے اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کر دیا ۔

مشرف حکومت کو جائز قرار دینا

جنرل مشرف نے طاقت کے ذریعے منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا مگر سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر طاقتور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور جسٹس منیر کے چالیس سالہ نظریہ ضرورت کو زندہ کرا کے آمر کے لیے راستہ نکال دیا گیا ۔

افتخار چوہدری بحالی کیس 2007

مشرف دور کے آخری سال دو میں انتظامیہ اور عدلیہ کا کشمکش شروع ہوا ۔ مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر کئی ایک الزامات لگا کر انہیں اپنے عہدے سے ہٹا دیا ۔ جولائی 2007 میں سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں ڈکٹیٹر کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر چیف جسٹس کو بحال کر دیا ۔

غیر منتخب جج صاحبان کا منتخب وزراء اعظم کو برطرف کرنا

پاکستانیوں نے یہ منظر بھی دیکھے ہیں جب 2012 میں غیر منتخب جج صاحبان نے توہین عدالت کے مقدمے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور 2017 میں پانامہ کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھیج دیا تھا ۔

مشرف سنگین غداری کیس 2019

تین نومبر 2007 کو جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل کر دیا ۔ اسی اقدام کو جواز بنا کر نواز شریف حکومت نے آرٹیکل 6 کے تحت مشرف پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا ۔ کئی سال بعد 2019 میں خصوصی عدالت نے مشرف کو قصوروار قرار دے کر اسے ڈی چوک میں پھانسی پر چڑھانے کا فیصلہ جاری کردیا ۔ اگر چہ اس فیصلے پر عمل درآمد تو نہ ہو سکا مگر جسٹس وقار سیٹھ کا یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔

سپیکر رولنگ/ عدم اعتماد کیس 2022

گزشتہ برس اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔ تحریک پر کارروائی شروع ہونے کے وقت ہی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اپنی رولنگ کے ذریعے اس تحریک کو مسترد کر دیا اور پھر اسی دن صدر عارف علوی نے وزیراعظم کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کر ڈالی ۔ چیف جسٹس نے اسی ہی دن عدالت لگا کر نہ صرف دونوں اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی بلکہ اگلے دن وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہی چلتا کیا گیا ۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ اکثر بیرونی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر غلط فیصلے دینے پر مجبور ہوئی ہے ۔ ملکی بحرانوں میں اس کا حصہ بھی شامل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان جج صاحبان کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے اپنی جان کا پروا کیے بغیر آئین و قانون کا ساتھ دیا ہے ۔ نظام انصاف کو آج بھی بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے ، دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

اسلامی فلسفہ کے نمایاں خصوصیات ، آئیے اسلامی فلسفہ کو جاننے کی کوشش کریں ۔

آج کی دنیا میں سافٹ سکلز کی اہمیت

بلوچستان بمقابلہ ریاست پاکستان ؛ کل اور آج

1 thought on “سپریم کورٹ فیصلوں کی تاریخ ؛ کچھ اچھے کچھ برے”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *