مصنف: عامر ظہیر (استاد ، مصنف ، بلاگر ، یوٹیوبر)
پارس ایران کا پرانا نام ہے۔ یہ ملک ہزاروں سال کی شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط سلطنت بن چکی تھی۔ جب عراق ، مصر اور ہندوستان میں بالترتیب میسوپوٹیمیا، نیل اور وادی سندھ کی تہذیبیں عروج پر تھیں، اسی زمانے میں 3200 قبل مسیح میں پارس میں ایلامی تہذیب کے نام سے ایک تہذیب نے جنم لیا، جس نے کچھ عرصہ میں ایک سلطنت کی شکل اختیار کر لی اور 1210 قبل مسیح میں یہ سلطنت اپنے عروج تک پہنچ چکی۔
ہخامنشی سلطنت
پانچ سو پچاس قبل مسیح میں سائرس اعظم کے ہاتھوں ہخامنشی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی زمانے میں مغرب میں یونان علم و تہذیب کا ایک مرکز بن چکا تھا۔ یوں 490 قبل مسیح میں پارس اور یونان کا پہلا مقابلہ ہوا جس میں یونان کی شہری ریاستیں فتح یاب ہوئیں۔ دس سال بعد پارس نے بدلہ لینے کے لیے یونان پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ شہر ایتھنز کو تباہ و برباد کر دیا۔ 330 قبل مسیح میں پارس اور یونان کا سب سے بڑا ٹکراؤ اس وقت ہوا جب یونانی بادشاہ سکندر اعظم پوری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے یہاں حملہ آور ہوا۔ شاہ پارس دارا سوئم جنگ میں مارا گیا اور ہخامنشیوں کے دور کا خاتمہ ہوا۔
سیلوسی اور فارسی سلطنتیں
سکندر اعظم کی موت کے بعد یونانی دنیا پر اپنا غلبہ قائم نہ رکھ سکے مگر ایک یونانی جنرل سیلوسس نے پارس کے مقبوضہ علاقوں پر محیط سیلوسی سلطنت کے نام سے اپنی حکمرانی قائم کی، جن کا رقبہ اپنے عروج کے زمانے میں 39 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچ چکا تھا، جو آج کے ایران کے ساتھ ساتھ شام، وسطی ایشیا اور ہندوستان کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ 247 قبل مسیح میں سیلوسی سلطنت کی جگہ فارسی سلطنت نے لے لی جس کا بانی اور پہلا بادشاہ آرسس تھا۔ یہ سلطنت 224 عیسوی تک قائم رہی جب ساسانیوں نے آخری بادشاہ اردشیر کو شکست دے دی۔

روم پارس جنگیں
اسی زمانے میں مغربی رومی سلطنت اور پارس کے درمیان صدیوں پر محیط جنگوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ 260 میں رومی سلطنت کے ساتھ لڑائی میں پارسیوں نے رومی بادشاہ ویلیرین کو قیدی بنا لیا جو اپنی موت تک قید میں ہی رہا۔ تقریباً ایک صدی بعد 363 میں رومیوں کو سمارا جنگ میں پھر شکست ہوئی، بادشاہ جولین زخمی ہوا اور ان زخموں سے ہی چل بسا۔ آٹھ سال بعد رومیوں نے آرمینیا جنگ میں ساسانیوں کو شکست دے کر بدلہ لے لیا۔ 421 میں لڑی گئی جنگ کے بعد دونوں عالمی طاقتیں ایک معاہدہ کے تحت اپنی اپنی سلطنت میں ایک دوسرے کے مذاہب کو برداشت کرنے پر راضی ہوئے۔ یاد رہے کہ رومی عیسائیت کے ماننے والے جبکہ پارسی آتش پرست تھے۔
عرب مسلمانوں کا پارس پر حملہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے زمانے میں سرزمین عرب پارس کا حصہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو آپ نے اسلام کی تبلیغ کی خاطر کئی بادشاہوں کو خطوط لکھے، جس میں ایک خط شاہ پارس خسرو پرویز کے نام بھی تھا۔ پرویز نے انتہائی متکبرانہ انداز میں خط کو پاڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی مرتکب بھی ہوئے کیونکہ یہ ساسانیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اسی بادشاہ کو اپنے بیٹے شیرویہ نے قتل کر دیا اور پھر خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں 633 میں جنگ قادسیہ کے نام سے فیصلہ کن جنگ لڑی گئی۔ عربوں کی لشکر کی قیادت مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص کر رہے تھے۔ جنگ کا نتیجہ گیارہ صدیوں سے قائم پارسی اور چار صدیوں سے قائم ساسانی سلطنت کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پارسی شخص نے بدلہ لینے کی خاطر 644 میں خلیفہ عمر کو شہید کر دیا تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں تمام پارسی مقبوضات مسلمانوں کے زیر قبضہ آچکی، جب 651 عیسوی میں آخری بادشاہ یزدگرد کو مرو کے مقام پر مار دیا گیا اور مکران بلوچستان تک خلافت کی حدود پھیل چکی۔
آٹھویں صدی عیسوی میں دو مرتبہ پہلی بار فرخ خان اور دوسری بار ایک انقلابی آتش پرست رہنما استاد سیس نے مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی۔ دونوں ابتدائی فتوحات کے بعد ناکام ہوئے اور مار دیے گئے۔
دولت طاہریہ
نویں صدی میں 821 عیسوی کو طاہر بن حسین نے ایران کے اندر اس سلطنت کی بنیاد رکھی یعنی کہ خلافت عباسیہ سے ایران کو الگ کر دیا گیا۔ یہ ریاست دس لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط تھی۔

دولت صفاریہ
867 عیسوی میں یعقوب لیث کی قیادت میں اس سلطنت نے دولت طاہریہ کی جگہ لے لی۔ اس خاندان کی حکومت 1003 تک قائم رہی۔ طاہری اور صفاری دونوں خاندان سنی اسلام سے وابستہ تھے ۔
سامانی ، زیاری اور بویہ سلطنتیں
گیارہویں صدی میں سلطنت فارس کی حدود میں تین سلطنتیں وجود میں آچکی۔ سامانی سلطنت وسطی ایشیا کے اکثر علاقوں پر محیط رہی، ایک وقت میں اس ریاست کا مجموعی رقبہ 28 لاکھ مربع کلومیٹر تھا۔
دوسری طرف کچھ علاقوں میں زیاری خاندان کی حکومت بنی جو 1090 تک قائم رہی جبکہ ایران اور عراق کے وسیع علاقے پر بویا سلطنت قائم ہوئی اول الذکر دونوں خاندان سنی جبکہ آخر الذکر شیعہ تھے۔ یہی وہ خاندان تھا جنہوں نے بغداد پر قبضہ کر کے خلافت عباسیہ کو یرغمال بنا لیا تھا اور حقیقت میں اختیار ان لوگوں کے پاس تھا۔ تقریبا ایک صدی تک یہ لوگ کئی خلفاء کو تخت پر بٹھا چکے تو کئی کو معزول کر گئے۔ خلفاء کی بے عزتی حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا۔ بعد میں ترک سلجوق خاندان نے اس خاندان کو شکست دے کر خلافت کی عزت کو بحال کر دیا ۔
جاری ہے ۔۔۔
دنیا کی تاریخ: چھٹا حصہ، سولہویں سے آٹھارویں صدی تک
چینی تاریخ کا مختصر جائزہ
مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان