مصنف: عامر ظہیر (استاد ،مصنف، بلاگر ، یوٹیوبر)
یہ چودہ سو بانوے کا سال تھا سپین سے ابھی ابھی مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ چونکہ اسی زمانے میں مسلمان علمی، سماجی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں سپین یورپ کا سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن چکا تھا۔ اسی اسپین سے تعلق رکھنے والے کولمبس نامی شخص نے ہندوستان (اس زمانے کی سب سے مالدار ترین ریاست) کی طرف مختصر راستہ تلاش کرنے کے لیے بحری جہاز پر سفر کا ابتدا کیا تو راستے میں ایک طوفان کی وجہ سے جہاز کا رخ تبدیل ہوا اور یہ لوگ سفر کرتے کرتے ہندوستان کے بجائے امریکہ پہنچ گئے۔ یورپی لوگوں کو پہلی مرتبہ اس بات کا علم ہوا کہ بحر اوقیانوس کی اس پار بھی بہت ایک بہت بڑی زمین موجود ہے۔ اسی وجہ سے آج کولمبس کو امریکہ کے دریافت کرنے والے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کولمبس کے وہاں جانے سے پہلے امریکہ میں لوگ رہ رہے تھے یا نہیں؟ تو اس سوال کا جواب “ہاں” میں ہے، یہی امریکہ کے اصل باشندگان کہلاتے ہیں۔ جسے پہلے ہسپانویوں اور پرتگالیوں اور بعد میں ڈچ، انگریزوں اور فرانسیسیوں نے غلام بنا لیا تھا ۔ ان یورپی طاقتوں کے درمیان براعظم شمالی و جنوبی امریکہ میں زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کے اس دوڑ میں برطانیہ سب سے کامیاب رہا جو موجودہ کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ جیسے بڑے ریاستوں کو قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ جنوبی امریکہ کے اکثر ممالک سپین کے غلامی میں رہیں۔ برطانیہ نے اپنے لوگوں (انگریزوں) کو امریکہ اور کینیڈا میں آباد کر دیا جس طرح انہوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کیا تھا اور یوں آج یہ پانچ ممالک انگریزی بولنے والے باشندگان پر مشتمل ہیں۔
امریکی سرزمین پر پہلی یورپی نو آبادیاتی کالونی کی بنیاد 1565 میں اسپین نے موجودہ فلوریڈا کے علاقے میں رکھی تھی جبکہ 1607 میں انگریز بھی یہاں پہنچ چکے جنہوں نے امریکہ میں تمباکو کی کاشت شروع کی۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ہزاروں افریقیوں کو یہاں لا طکر غلاموں کے طور پر آباد کیا گیا۔ 1763 میں برطانیہ نے فرانس کو سات سالہ جنگ میں شکست دے کر ایک بڑے علاقے پر قبضہ کردیا ۔

امریکی جنگ آزادی
سترہ سو پچھتر میں امریکیوں نے جنگ آزادی کے لیے کمر کس لی اور برطانوی فوج میں شامل اپنے ایک افسر جارج واشنگٹن کو اپنا کمانڈر مقرر کیا۔ ایک سال کے بعد امریکی اپنے مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے اور چار جولائی 1776 کو 13 امریکی ریاستوں نے آزادی کا اعلان کیا ۔آزادی کی جنگ میں فرانسیسیوں نے بھی امریکیوں کی مدد کی تھی. 1783 میں برطانیہ نے پیرس معاہدے میں ان ریاستوں کی آزادی کو تسلیم کر دیا۔ 1787 میں امریکہ کا آئین بنایا گیا جسے اگلے سال نافذ کیا گیا اور 1789 میں جارج واشنگٹن پہلے امریکی صدر منتخب ہوئے۔
انیسویں صدی کا امریکہ اتنا کمزور تھا کہ 1812 میں برطانیہ نے وائٹ ہاؤس پر بمباری کی اور امریکہ پر کئی تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ لیکن دوسری طرف ابتدا ہی سے امریکہ توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا ملک تھا ۔ یاد رہے کہ 1846-48 میں امریکا نے میکسیکو کے ساتھ ایک جنگ لڑی جس کے نتیجے میں وہ میکسیکو سے کیلیفورنیا اور نیو میکسیکو کے علاقے چھین لینے میں کامیاب ہوا۔ اسی طرح 1898 میں بھی امریکہ اور سپین کے درمیان کیوبا کے مسئلے پر جنگ لڑی گئی تھی، اسی سال امریکہ نے ہوائی ریاست کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔
امریکی خانہ جنگی 1861-65
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ ان لوگوں نے 1854 میں ریپبلیکن پارٹی کی بنیاد رکھی اور چھ سال بعد پارٹی کے رکن ابراہم لنکن امریکی صدر منتخب ہوئے۔ غلامی کے حامی 11 ریاستوں نے کنفیڈریٹ سٹیٹس آف امریکہ کے نام سے یونین بنایا اور غلامی کے مخالف شمالی ریاستوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور یوں ایک خانہ جنگی شروع ہوئی۔ 1865 میں کنفیڈریٹس نے شکست کھائی۔ تیرہویں ترمیم کے ذریعہ غلامی کے خاتمے کا قانون نافذ کیا گیا۔ صدر ابراہم لنکن کو قتل کر دیا گیا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کا کردار
امریکہ دونوں جنگوں میں پہلے سے شامل نہیں تھا بلکہ بعد میں شامل ہوا پہلی جنگ عظیم میں 1917 میں کھود چکا اور یہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ کی غالباً پہلی شمولیت تھی۔ مگر جنگ کے بعد لیگ آف نیشن کے نام سے بنائے گئے تنظیم کا رکن بننا پسند نہیں کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جاپان نے 1941 میں امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ کیا تو امریکہ ردعمل کے طور پر جنگ میں شامل ہوا۔ اس جنگ کے دوران امریکا واحد ملک تھا جس کے پاس ایٹم بم تھا اور یوں اس نے 1945 میں اس ہتھیار کا استعمال کرکے جاپان کو شکست کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ امریکہ کے لئے دوسری جنگ عظیم ایک سنگ میل ثابت ہوا کیونکہ جنگ کی وجہ سے یورپی طاقتوں کا زور ختم ہو گیا اور وہ اب معاشی امداد کے لیے امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ امریکہ اور روس دنیا کے دو سپر پاور بن چکے تھے۔
سرد جنگ کا زمانہ
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ سرمایہ دارانہ دنیا کے لیڈر کے طور پر امریکہ اور اشتراکی دنیا کے امام کے طور پر روس کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ تقریباً نصف صدی تک یعنی کہ روس کے ٹوٹنے تک جاری رہی جس میں دونوں حریف بین الاقوامی تعلقات، معیشت، فوجی طاقت اور خلائی مسابقت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں کئی اہم واقعات پیش آئے مثلاََ 1963 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کر دیا گیا، 1964 میں ویتنام پر حملہ کیا گیا۔ اسی جنگ میں امریکہ 58 ہزار فوجی ہلاکتوں کے ساتھ بدترین شکست سے دوچار ہوا جس سے پوری دنیا میں امریکی امیج کو سخت نقصان پہنچا۔ 1968 میں امریکہ کے اندر کالے لوگوں کے حقوق کے علمبردار مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا جبکہ 1969 میں امریکی خلا باز نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا۔ وہ پہلا انسان تھا جو چاند پر پہنچ چکا۔
امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر
انیس سو اکانوے میں روس کے ٹکڑوں میں بٹ جانے کے بعد امریکا دنیا کا واحد سپر پاور بن چکا، کمیونزم کا خاتمہ ہوچکا۔ اقوام متحدہ امریکہ کے گھر کی لونڈی بن چکی جسے امریکی خارجہ پالیسی کو پوری دنیا میں نافذ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے اپنے مخالف ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کراتا رہا یہاں تک کہ 2003 میں اقوام متحدہ کے پرزور مخالفت کے باوجود امریکہ نے عراق پر حملہ کیا مگر امن کو قائم رکھنے کے لیے بنائی گئی یہ عالمی تنظیم صرف تماشا دیکھتی رہی۔

نائن الیون واقعہ
ستمبر 2001 میں القاعدہ کی طرف سے ہائی جیک کیے گئے جہازوں کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملے کیے گئے جس میں تین ہزار لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس حملوں نے امریکیوں کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا۔ یہ حملے دراصل امریکی غرور کے خاتمے کے لیے ایک الٹی میٹم تھا مگر امریکا نہ سمجھ سکا اور القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے نیٹو اور ایساف کے تقریباً 48 ممالک کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے دوڑ پڑا۔ طالبان حکومت ختم کر دی گئی۔ القاعدہ اور طالبان کا نام و نشان مٹانے کے لئے امریکہ اگلے بیس سال تک افغانستان میں پہاڑوں اور غاروں پر بمباری کرتا رہا۔ بالآخر معصوم افغانوں کے خون کے دھبے اپنی قمیض پر لے کر 2021 میں اقتدار ان لوگوں کو منتقل کیا جن کے خاتمہ کرنے کے لیے بیس سال پہلے وہ یہاں آئے تھے۔ اس بیس برس میں دنیا تبدیل ہو چکی تھی، امریکا دنیا کا واحد عالمی طاقت نہ رہ سکا تھا بلکہ روس اور چین کی شکل میں دو ہاتھی ان کے سامنے مضبوط کھڑے ہو چکے تھے ۔
افغان جنگ کے ساتھ ساتھ 2003 میں عراق پر حملہ کیا گیا۔ صدر صدام حسین کو مسلمانوں کے مقدس یوم “عید الاضحیٰ” کے دن سولی پر چڑھایا گیا۔ عراق پر حملہ کرنے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ صدام حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیار موجود ہیں مگر ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرکے 2011 میں عراق سے نکلنے کے وقت اپنی غلطی تسلیم کر لی گئی کہ عراق میں تباہ کن ہتھیار موجود ہونے کی بات جھوٹ پر مبنی تھی۔ 2011 میں لیبیا پر فضائی حملے کرا کے صدر قذافی کو قتل کردیا گیا۔ قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد آج تک لیبیا میں خانہ جنگی چل رہی ہے۔ اسی سال القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں نشانہ بنایا گیا اور ٹھیک گیارہ سال بعد کابل میں ایک ڈرون حملے کے ذریعے اسامہ کے بعد القاعدہ سربراہ بننے والے ایمن الظواہری کو قتل کر دیا گیا۔
امریکی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اس ملک کے بارے میں جانکاری حاصل ہوتی ہے جو برطانیہ سے آزادی حاصل کرتا ہے۔ آزادی کے 36 سال بعد برطانیہ وائٹ ہاؤس پر بمباری کرتا ہے مگر کامیاب حکومتی پالیسیوں اور امریکی قوم کی محنت کے بل بوتے ڈیڑھ صدی بعد امریکہ ایسا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ وہی برطانیہ اس کے اشاروں پر چلنے لگتا ہے۔ امریکہ کی توسیع پسندانہ عزائم، کمزور ممالک پر حملے اپنی جگہ مگر آج بھی دنیا میں کیا تعلیم، معیشت، سیاسی استحکام ، فوجی طاقت اور ایک فعال سول سوسائٹی میں اس ملک کا مقابلہ کرنے والا کوئی موجود ہے؟
سپر پاور کی کہانی، زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک
پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ : محبت اور نفرت کا مشترکہ سفر؛ ماضی، حال، مستقبل